کراچی: وہی حالات ہیں غریبوں کے!

| تحریر: جنت حسین |

کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائمز اور کارلفٹنگ کے واقعات کے درمیان جب وقفہ آتا ہے توبلندو بانگ دعوئے کئے جاتے ہیں کہ امن بحال ہوگیا ہے، مگر زمینی حالات ناگفتہ بہہ ہی ہیں۔ کراچی میں 100 سے زائد تھانے ہیں جن میں سے 52 تھانوں کے ریکارڈ میں جرائم بڑھے ہیں۔ گزشتہ دنوں سابقہ پویس چیف نے ایک پروگرام میں بتایا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 80 فیصد سے زائد ایسے ملزمان جیل میں بند ہیں جن کے کیسوں کے فیصلے نہیں ہورہے۔ اس کے علاوہ دوسرا انکشاف یہ کیا کہ ماضی میں اگر کسی لڑکی کا ریپ کیا جاتا تواُس کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا، مگر اب اکثر مار دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات روزانہ کی بنیادوں پر شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں 6 سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا کاٹ کر پھینک دیا گیا، مگر وہ اتفاقاً بچ گئی۔ لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ کالعدم مذہبی اور لسانی جماعتیں، دوسرے ناموں کے ساتھ سر گرم ہیں، سیاسی کارکنوں پر کفر کے فتویٰ لگا کر معاشرے میں فرقہ واریت، تشدد اور لسانیت کا زہرپھیلارہے ہیں اور ریاست کو اپنی حمایت کا یقین دلارہے ہیں۔ اب تو ٹی وی کے ٹاک شوز بھی اسی مقصد کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔
ایم کیوایم تین مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے مگر اب بھی ریاستی اور بین الاقومی ہاتھوں سے نہیں نکلی۔ رہنماؤں کی بیان بازیاں اپنی جگہ ہیں مگر کارکنان خوف میں مبتلا ہیں کہ درپردہ کون، کس کے ساتھ ہے؟ کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کے 259 محنت کشوں کو زندہ جلانے کا کیس ہویا پھر 12 مئی کے سیاسی و لسانی بنیادوں پر قتل عام کے واقعات، سب عیاں ہوچکا ہے۔ لیکن عدالتیں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں کیونکہ مارے جانے والے عام پسے ہوئے طبقے کے لوگ تھے۔ اس ساری کیفیت میں محنت کش طبقے کی روایتی پارٹی، پیپلز پارٹی کی قیادت ریاست کی خوشنودی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جاتے دے رہی۔ محنت کشوں کے سب سے بڑے شہر میں پارٹی کی قیادت ایک ایسے آدمی کو دی گئی جس کا پیپلز پارٹی سے کوئی واسطہ ہی نہیں بلکہ یہ صاحب قیادت کے خاص لوگوں میں شامل ہیں اور کہا جارہا ہے کہ مہاجر ووٹ بینک کی خاطر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ مگر موصوف کا تعلق اردو بولنے والے محنت کشوں کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسا اندرون سندھ کے وڈیرے کا سندھی بو لنے والے محنت کشوں سے ہے۔ پارٹی کی نئی قیادت اب نجی محفلوں میں ڈیموکریٹک سوشلزم کی باتیں کررہی ہے مگریہ محنت کش طبقہ فیصلہ کرے گا کہ کس سوشلزم کے لیے میدانِ عمل میں داخل ہونا ہے۔ چین میں ماؤ کو بھی غلط فہمی تھی کہ 100 سال تک سرمایہ داری ہوگی اس کے بعد سوشلزم آئے گا۔ لیکن جب تحریک شہروں میں پہنچی تو محنت کشوں نے فیکٹریوں اور کارخانوں پر قبضے کرنا شروع کردیے تھے، انقلابی ادوار میں ان اقدامات کے لیے محنت کشوں کو کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ 1968-69ء میں کراچی سمیت پورے پاکستان کی صنعت و معیشت کو محنت کشوں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ ریاست تحلیل ہوگئی تھی اور تمام اقدامات، سڑکوں، چوکوں، چوراہوں، کھلیانوں اور فیکٹریوں میں ہورہے تھے۔
حکمران ایک طرف پاناما کرپشن کے بے معنی کھلواڑ پیش کر ر ہے ہیں تو دوسری طرف یہ بتایا جارہا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کا 100 انڈیکس 50 ہزار کی حد کراس کر گیا ہے، سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے جس کی مثال بینکوں کے ہیڈ آفسوں کی کثیر منزلہ عمارتوں سے دی جارہی ہے۔ سی پیک کو ایک مقدس چیزاور سارے مسائل کا حل بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس منصوبہ کے خلاف کسی بھی بات کو ملکی سلامتی کے بر خلاف تصور کیا جاتا ہے اور اس پر نیشنل ایکشن پلان کا فوری اطلاق ہوجا تا ہے۔ جس کی مثال کئی سماجی و سیا سی کارکنوں کی جبری گم شدگی کی شکل میں واضح ہے۔ لیکن ان حکمرانوں کو جلد اندازہ ہوجائے گا کہ چین جس کی اپنی آبادی کے 22 کروڑ باشندے بے روزگار ہیں وہ یہاں کونسا روزگار دے گا!
روشنیوں اور محنت کشوں کا شہر کراچی جو دنیا کے چند بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے آج رہنے کے قابل نہیں رہا۔ ماحولیات کو تباہ کردیا گیا ہے، سیوریج کا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں پھینکا جارہا ہے، جس سے آبی حیات بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ شہر گندگی کا ڈھیر سے اٹا پڑا ہے، گٹر اُبل رہے ہیں، جو سڑکیں کھودی گئی ہیں وہ حالیہ بارشوں میں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت اور کراچی کی شہری حکومت اختیارات اور فنڈز کی تقسیم پر لڑ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی کراچی کے بارے میں ترجیحات کااندازہ کااس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے توایک ایسے شخص کو گورنربنایا گیا جو ایک دن بھی آفس نہ جا سکا اور اب کراچی کے چند بڑے تاجروں کو گورنر شپ کی نئی لسٹ میں رکھ کر شاید بولی لگا کر اس عہدے کو نیلام کیا جارہا ہے۔ اس وقت کراچی سے حیدر آباد موٹروے بن رہی ہے جس کا 60 فیصد کام ابھی نا مکمل ہے مگر FWO نے نیا ٹول پلازہ بنا کرمسافر بسوں سے 100 روپے کے بجائے 400 روپے ٹیکس لینا شروع کر دیا ہے اور وہ بھی گھنٹوں انتظار کی اذیت کے بعد۔ پہلے یہ سفر 2 گھنٹے میں مکمل ہوتا تھا اب 4 سے 5 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ دوسری طرف محنت کشوں کے حالات بد سے بد تر ہورہے ہیں اسٹیل مل کے محنت کش جب اکتوبر2016 کی تنخواہ کے لئے احتجاج کررہے تھے اسی دوران کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کا پاکستان اسٹیل اور SME بینک کی نجکاری کا فیصلہ بھی آ گیا۔ گڈانی میں مزید ایک اور واقعہ میں 5 مزدور زندہ جل گئے۔ شپ بریکنگ کا یہ ادارہ موت کا کنواں بن چکا ہے جو حکومت بلوچستان کو 5 ارب روپے کا سالانہ ریونیو تو دیتا ہے لیکن یہ نہ وفاقی حکومت اور نہ ہی بلوچستان حکومت کے کنٹرول میں ہے بلکہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیر کنٹرول ہے، جس میں 12 ہزار کے قریب مزدور کام کرتے ہیں مگرا ن کے لئے کسی قسم کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ اس وقت ٹریڈ یونین تحریک ایک بحران کا شکار ہے۔ اس کی ممبر شپ میں بہت زیادہ کمی آئی ہے اور حکمرانوں نے گزشتہ سالوں میں جو نجکاری، ڈاون سائزنگ، لبرل لائزشن، ری اسٹرکچرنگ اور اس قسم کی سامراجی پالیساں لاگو کی ہیں، ان کے خلاف ٹریڈ یونین تحریک کوئی بڑی مزاحمت نہیں کرسکی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام محنت کشوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہوئے مشترکہ نکات پر جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔
کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج روزانہ کا معمول بن گئے ہیں۔ کبھی ٹیچرز اپنے مطالبات کے لئے آوازِ حق بلند کرتے ہیں، کبھی لیڈی ہیلتھ ورکر تنخواہوں کے لیے سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ پیرا میڈیکل اسٹاف کے مزدور تو پورا سال اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں، مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ اسمبلی میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں اور پھر اجرک ڈال کر راضی نامہ کر لیتے ہیں۔ یہ مصنوعی لڑائیاں محنت کشوں کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کے لئے لڑی جاتی ہیں، مگرمحنت کشوں کے پاس 68-69ء کے انقلاب کی 139 دن کی میراث موجود ہے۔ جب محنت کش اٹھیں گے تو حکمرانوں کو کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی۔ مگر اس ادھورے انقلاب کی تکمیل کے لیے یہاں پر ایک انقلابی مارکسی پارٹی کی نا گزیر ضرورت ہے۔ ورنہ یہ بھاپ کسی پسٹن کے بغیر ہوا میں تحلیل ہو کر ضائع ہوجائے گی۔ ماضی میں بھی اس ملک کے طلبہ متحرک ہوئے تھے، آج حالات پہلے سے زیادہ نازک ہیں، ہاری آج بھی پہلے سے زیادہ ظلم اور استحصال کا شکار ہیں۔ پرائیوٹ سیکٹر میں جنگل کا قانون رائج ہے۔ سرمایہ دار، جاگیردارحکمران مل کر محنت کشوں کو اس نظام کا ایندھن بنارہے ہیں، لیکن وہ وقت دور نہیں جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے۔