انحصار کی سیاست
نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے جمہوری نظام، سویلین بالادستی اور آئینی شقوں کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا تھا۔
نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے جمہوری نظام، سویلین بالادستی اور آئینی شقوں کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا تھا۔
پرویز رشید جیسے سابقہ بائیں بازو کے رہنما نواز شریف کو جتنے بھی سبق پڑھا لیں نواز لیگ روایتی طور پر سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور نواز شریف اس طبقاتی نظام کے خلاف کوئی سنجیدہ موقف اختیار نہیں کر سکتا۔
شہزادوں اور شہزادیوں کے عشق ومحبت کی داستانیں اور ان میں پڑنے والے شگاف اور ہجر کی کہانیاں معاشرے کی عمومی روایات اور حکایات بنا دی جاتی ہیں۔
الیکشن میں پوسٹروں اور بینروں کے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں۔ کارنر میٹنگز مختلف علاقوں کے درمیانے مالدار کاروباری کرواتے ہیں۔ پولنگ ایجنٹوں کے لیے اعلیٰ کھانے پیک ہو کر آتے ہیں۔
سوائے محنت کشوں اور نظریاتی ساتھیوں کے آپ کا ہوتا کون ہے؟ مشکل وقتوں میں بڑے بڑے ’انقلابی سورمے‘ کہیں بھی بِک جاتے ہیں، کہیں جھک جاتے ہیں اور کہیں آپ کو بھی بیچ دیتے ہیں۔
یہ معاملہ اپنی ظاہریت میں جتنا سادہ نظر آتا ہے اپنی گہرائی میں کہیں زیادہ پیچیدہ معلوم پڑتا ہے۔
اعلیٰ سیاست دان کا معیار زیادہ بلند پیمانے کا جگت باز ہونا رہ گیا ہے۔ ایک تماشا لگا ہواہے جس کے گرد ریٹنگ بنتی ہے اور ٹیلی ویژن چینلوں کے اداکاروں کو صحافی اور سیاستدان بنانے کے معیار طے کرتی ہے۔
اگر اقتدار بدل کر اِس سارے انتشار کو سمیٹنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو یہ بحران کم نہیں ہو گا۔
ضیا کی میراث بنیادی طور پر مذہبی جنونیت اور ابتدائی کالے سرمائے کے ارتکاز کا گٹھ جوڑ ہے…
عوامی تحریک نے ملکیتی رشتوں کوچیلنج کردیا تھا لیکن اصلاحات کے محدودیت کی وجہ سے ہر دلعزیز قیادت بھی ملکیت کا خاتمہ نہ کرسکی۔
ان جعلی لڑائیوں کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول اور غریب عوام کو بربادیوں میں دھکیلتے ہوئے اس نظام زر کی رکھوالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سطح کے نیچے مزدور طبقے میں نجکاری کے گرد ایک شدید غصہ اور نفرت موجود ہے جو کسی ایک چنگاری سے بھڑک کر زر کے اس نظام کو راکھ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔
’’آزاد انتخابات، آزاد صحافت اور ایک آزاد عدلیہ کے معنی بہت چھوٹے ہوگئے ہیں کیونکہ آزاد منڈی کی معیشت نے اِن کو اُن اجناس میں تبدیل کردیا ہے۔‘‘
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔
عوام کو تو جینا ہے۔ اس جینے کے لیے ان کو ہرروز ایک لڑائی لڑنی ہے۔