سندھ کی سیاست: شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے!

تحریر: راہول

پچھلے چند ماہ سے سندھ میں سیاسی سرکس زور وشور سے جاری ہے۔ وزیراعظم کا حالیہ دورہ سندھ ہو یا پھر وزیر اعلیٰ سندھ کی بڑھکبازیاں، ملک کی بیشتر جماعتوں نے سندھ میں لگے اس سیاسی سرکس میں کرتب دیکھانے کا عمل جاری کئے رکھا ہے اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق وہ اس عمل میں پیش پیش ہیں۔ ہر سیاسی جماعت جو کچھ عرصہ پہلے تک ’’مفاہمت‘‘ اور ملک کے ’’وسیع تر مفاد‘‘ و ’’جمہوریت‘‘ کی خاطر ایک دوسرے کے پہلو میں تھیں، اب اچانک ایک دوسرے سے دست گریباں نظر آتی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف جعلی بیان بازیاں و بڑھکبازیوں کا یہ سلسلہ چاہے کچھ عرصہ ہی جاری رہے لیکن جس بے شرمی اور مکاری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے وہ اس بات کوثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ان جعلی لڑائیوں کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول اور غریب عوام کو بربادیوں میں دھکیلتے ہوئے اس نظام زر کی رکھوالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی گیس کی عدم فراہمی پر اسمبلی میں کی گئی حالیہ تقریر اور وزیر اعظم کو لکھے گئے خط نے بیشتر حلقوں کوکچھ ایسے حیران کیا ہے کہ جیسے پیپلزپارٹی نے سندھی عوام کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کی ٹھان لی ہو۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم نواز شریف کو اس خط کے ذریعے ان کے سوئی گیس کے منصوبوں کی توسیع کے فیصلے پر تنقید کی، جس میں بقول انکے زیادہ تر منصوبے پنجاب کو دیے گئے ہیں۔ اس خط میں وزیر اعلیٰ سندھ نے مزید کہا ہے کہ پنجاب گیس کی ملکی پیداوار کا صرف تین فیصد پیدا کرتا ہے لیکن اس کا خرچ 42 فیصد ہے جبکہ 37 ارب ڈالر کے یہ منصوبے آئین کی شق 158 کی صریح خلاف ورزی ہیں، کیونکہ اس شق کے مطابق پیداوار کا بڑا حصہ اس صوبے کو ملے گا جہاں کنویں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ مزید تقاریر و بیان بازیوں میں واضح طور پر وزیر اعلیٰ کی ’’پریشانی‘‘ دیکھی جاسکتی ہے۔ گیس کے معاملے پر اچانک بڑھتی اس پریشانی کا سبب بنیادی طور پر سندھ کی وہ عوام نہیں جنہیں کئی دہائیوں سے بجلی، پانی، گیس، خوراک و علاج جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ ان تمام بڑھکبازیوں اور دعوؤں کے پیچھے دراصل نوری آباد میں لگایا جانے والا زرداری صاحب کا سو میگا واٹ کا پاور ہاؤس ہے۔ ویسے تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اس پاورہاؤس سے پیدا ہونے والی بجلی سندھ اور خاص طور پر حیدرآباد میں بجلی کے بحران کو دور کرے گی۔ لیکن جس ریاست میں دولت کے بلبوتے پر الیکشن لڑے جاتے ہوں وہاں کامیاب ہونے والے حضرات کا مقصد بھی محض دولت کا حصول ہی ہوتا ہے اور اسی لئے حالیہ نوری آباد پاور ہاؤس کی پریشانی بھی کوئی سندھ کی عوام کی پریشانی نہیں بلکہ زرداری لیگ کو قلعہ نما عمارات تحفوں میں فراہم کرنے والے ان کے بزنس رہبر و ان داتا ’’ملک ریاض‘‘ کے ’’بحریہ ٹاؤن‘‘ کوبجلی کی فراہمی ہے۔ کراچی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تعمیر ہونے والے’’ امیرالامرا‘‘ کے اس ٹاؤن میں سندھ کی ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کچھ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ جنہیں کچھ حاصل نہیں ہو پا رہا وہ احتجاج بھی کر رہے ہیں اور باقی رالیں ٹپکاتے کچھ حاصل کرنیکی آس میں بیٹھے ہیں۔ ڈان میں گزشتہ سال شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ لینڈ حکام اور بحریہ ٹاؤن پرائیوٹ لمیٹڈ کے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں زمین پر قبضوں کے خاطر ہر قسم کی قانونی خلاف ورزی میں ایک دوسرے سے ساز باز پر مبنی ہے جبکہ اس منصوبے لئے مختص کی گئی زمین سے کئی گناہ زیادہ زمین گردنواح کے دیہاتوں کو جبری خالی کروا کر حاصل کی گئی ہے، اس منصوبے سے ثقافتی ورثہ سائیٹس و ماحولیات کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ ایسے میں وزیر اعلیٰ کی پریشانی خاصی توجہ طلب ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ اور ان کی سیاسی جماعت ’’زرداری لیگ‘‘ آخر کس کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
زرداری اور ان کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے آجکل وفاق پر کچھ اس انداز میں انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں جیسے ان کے اپنے دور اقتدار میں سندھ میں ’’دودھ کی نہریں‘‘ بہتی تھیں۔ گزشتہ نو سال مسلسل سندھ میں حکمرانی کرنے کے باوجود بھی وہ سندھ کے بیشتر بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تعلیم سے لیکر صحت تک، ہر شعبہ پہلے سے زیادہ خستہ حالی اور بربادی کی جانب بڑھا ہے۔ سیہون میں ہوئے حالیہ دھماکے کے بعد جس طرح انسانی جانیں گئیں وہ سندھ کی حکمران جماعت کی ناہلی اور ناکامی کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔ کئی ساری جانیں صرف اس لیے دم توڑ گئیں کیونکہ وہاں کسی طور بھی کوئی طبی سہولت موجود نہیں تھی۔ اس دھماکے سے سات ماہ قبل عبداﷲ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے بارے میں روزنامہ ڈان میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ وہاں ڈاکٹروں اور اسپیشلسٹس کی چھیانوے آسامیوں میں سے صرف آٹھ بھری ہوئی ہیں اٹھاسی خالی ہیں۔ دھماکے کے بعد ہسپتال میں محض ایک ڈاکٹر کا اضافہ کیا گیا اور اب ستاسی آسامیاں خالی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کا بجٹ دو سو پچیس ملین روپے ہونے کے باوجود بھی کسی طور پر کوئی بہتری نہیں لائی جاسکی اور یہ رقم محض تنخواہوں، انتظامی اخراجات و کرپشن کی نظر ہوجاتی ہے۔ باقی ترقیاتی بجٹ کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے کی اگر یہ حالت ہو تو اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ باقی سندھ کی حالت کس قدر خراب ہوگی۔
اسی طرح ان تمام وڈیروں، جن میں بیشتر آج پیپلز پارٹی کے منسٹر ہیں اور جن کی بدولت زرداری لیگ گزشتہ نو سالوں سے یہاں حکومت قائم رکھنے میں کامیاب رہی، نے پہلے محض اپنے دیہاتوں کے تعلیمی اداروں کو برباد کر رکھا تھا، جہاں پرائمری اسکول ان کی بھینسوں کے باڑے ہوا کرتے تھے، لیکن آج وہ بربادی پورے سندھ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پسماندگی کی دلدل میں دھنسے یہ افراد جدید ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر بھی اسی تنگ نظری اور پسماندگی کا پرچار کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ وہی حضرات ہیں جو ہر سال نہ جانے کتنی بچیوں کو غیرت پر قتل کروانے یا سنگ چٹی (بدلے کے طور پر) دینے کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وڈیرے و جاگیردار ہی بنیادی طور پر یہاں ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ تمام حضرات ہر دور حکومت میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے حاضر رہتے ہیں، بس قیمت درست لگنی چاہیے۔ ضیا سے لیکر مشرف تک آمریت ہو یا جمہوریت ہر حکومت میں یہ سندھ کے مقدر کو بیچتے رہے ہیں۔ تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضروریات کے وزرا بھی یہی رہے تو قانون بنانے والے اداروں میں بھی انہی کی اکثریت رہی۔ عین ممکن ہے کہ اگر آنے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی کامیاب نہ بھی ہو یہ حضرات اسمبلی کی سیڑھیاں ضرور چڑھیں گے۔ اسی طرح کے افراد سے نہ صرف سندھ بلکہ شاید پورے ملک کی اسمبلیاں بھری ہیں اور کم و بیش انہی مسائل کا سامنا ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔
زرداری کی وطن واپسی اور پھر شرجیل میمن و ڈاکٹر عاصم کی ضمانت بھی پچھلے کئی روز سے ملکی سیاست کے’’ بڑے‘‘ بھونچالوں میں سے ایک رہے۔ یہ واقعات قانونی ضابطوں اور دائروں کو عیاں کرتے ہیں، سولون نے شاید ایسے ہی قانون کے لئے لکھا تھا کہ ’’یہ اُس مکڑی کے جال کے مانند ہیں، جس میں کمزور تو پھنس جاتا ہے لیکن طاقتور اسے پھاڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔‘‘ کچھ اسی قسم کا نظارہ پچھلے دنوں اس مملکت میں بھی دیکھا گیا کہ جہاں اربوں لوٹنے والوں کو لاکھوں میں ’’ضمانت‘‘ پر رہا کر دیا گیا۔ شرجیل میمن سے لیکر ایسے کئی نو دولتیے پچھلے کچھ عرصے میں ہمیں پارٹی پر براجمان ہوتے دکھائی دئیے، یہ حضرات بنیادی طور پر کسی طور پر بھی سیاسی حیثیت نہیں رکھتے تھے بلکہ زرداری کے ’’ یاروں‘‘ میں فہرست میں رہے اور یاریاں نبھاتے نبھاتے منسٹر بن گئے، اور عوام کے پیسے کی کبھی نہ دیکھی گئی لوٹ مار کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان ضمانتوں کے بعد یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی جارہی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ اور زرداری ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں مگر حالیہ دنوں زرداری کے دوستوں کے اچانک ’’گم‘‘ ہو جانے کے واقعات نے پھر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا اور بڑھکبازیاں زور شور سے جاری رہیں۔ اپنے دوستوں کی گمشدگی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے جیسے پارٹی کے کسی اہم رہنما کو یرغمال بنایا گیا ہو، درحقیقت جن افراد کو گم کروایا گیا یا کیا گیا وہ نہ تو پارٹی میں کوئی حیثیت رکھتے تھے اور نہ ہی سماجی طور پر انکے اٹھائے جانے کا کوئی جواز ملتا ہے البتہ ان کا کردار محض زردای کے جوڑی دار سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اٹھائے گئے نواب لغاری ماضی میں قوم پرستوں سے وابستہ تھے اور 30 ستمبر 1988ء کو حیدرآباد میں فائرنگ کے واقعات میں قادر مگسی و دیگر کے ہمراہ ملوث تھے، حیدرآباد میں جب 18 ستمبر 1997ء کو سابق وفاقی سیکرٹری عالم خان عالمانی کو قتل کیا گیا تو ایف آئی آر میں آصف علی زرداری اور ان کے والد سمیت سات افراد پر یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا اور دو ماہ بعد اس مقدمے میں نواب لغاری کا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور عالم عالمانی کے گھر گئیں تھیں، جس کے بعد دونوں فریقین نے صلح کر لی اور یوں عالمانی کا خاندان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا، جبکہ غلام قادر مری زرداری کی زمینیں اور شوگرملوں کی دیکھ بھال کے لئے مشہور ہے۔ عین ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد عزیر بلوچ کے اچانک بیانات کی طرز کے بیان انہی افراد سے سننے کو ملیں۔ عزیر بلوچ کی جانب سے لگائے گئے الزمات کئی ایسی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں جوکہ ماضی قریب میں شاید محض افواہیں تصور کی جاتی تھیں۔ یہ الزامات ریاست کے کسی بھی سنجیدہ ایکشن کے لئے کافی ہیں لیکن اب تک کچھ نہ ہونا اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ یہ سب کچھ بنیادی طور جِن کے مکمل خاتمے کی نہیں بلکہ بوتل سے نکلے جِن کو قابو میں رکھنے کی ایک کوشش ہے، زرداری لیگ بھی اب اسی کشتی میں سوارہوتی نظر آرہی ہے جس میں کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم تھی۔
پیپلزپارٹی کی گھٹتی ساکھ کا فائدہ دیگر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے حاصل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور عمران خان کا دارومدار اور رجحان ایک بار پھر انہی وڈیروں کی طرف ہے جو سندھ کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ دوسری جانب سندھ میں موجود تقریباً سبھی قوم پرست جماعتیں آج اپنے تاریخی بحران کی زد میں ہیں۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو بیشتر دوسری تحریکوں کی طرح سندھ میں قوم پرستی کی تحریک کی قیادت بھی درمیانے طبقے کے دانشوروں اوراسی طرح دوسرے افراد کے پاس رہی، سندھ اسمبلی میں پاکستان سے الحاق کی قرار داد پیش کرنے والے جی ایم سید سندھ کی پاکستان سے علیحدگی کی بات کرنے لگے اور سندھو دیش کے نعرے کے تحت سندھ کی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا گیا۔ دوسری جانب سندھ میں بائیں بازو کے لیڈر اور دانشور اسٹالنسٹوں سے زیادہ قوم پرست تھے اور یہاں بائیں بازو پر زیادہ تر ماؤ ازم کا غلبہ رہا اور یہاں بائیں بازو کی تحریک قوم پرستی میں دبی رہی۔ ماؤ ازم کے تحت گوریلا ازم کے نظریات اور طریقہ کار کا پرچار جاری رہا، طبقاتی تحریک قومی بنیادوں کے ساتھ ساتھ دیہی اور شہری تحریکوں میں بھی بٹ گئی۔ عمومی طور پر ماؤاسٹ گوریلا طریقوں کے تحت غریب کسانوں، مزارعوں اور درمیانے طبقے کے دیہی طالب علموں کے ذریعے ایک کسان جنگ کا لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ اس کے تحت ایک کسان گوریلا جنگ کے ذریعے انقلاب کو دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں منتقل کرنا مقصود تھا لیکن اس قومی تحریک میں دائیں اور بائیں بازو کے تضادات بار بار ابھر کر اس میں ٹوٹ پھوٹ کا موجب بنتے تھے کیونکہ قومی بنیادوں پر ابھرنے والی تحریک آخری تجزیے میں ناگزیر طور پر اس قوم کے حکمران طبقے کے کنٹروں میں رہتی ہے۔ پھر بلوچستان کی طرح تحریک کی قومی محدودیت اور قیادت کی مخصوص پیٹی بورژوا سوچ کی بدولت اس کو وسیع بنیادیں نہ مل سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں چلنے والی بیشتر تحریکوں خصوصاً 1983ء اور 1986ء کی تحریکوں میں قومی عنصر بھی موجود تھا لیکن پیپلزپارٹی کا سندھ پر حاوی رہنا سندھ میں بھی طبقاتی بنیادوں پر تحریک کے زیادہ امکانات اور جڑت کا اظہار کرتا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حمایت میں جہاں سندھی قوم پرستی کا ایک عنصر موجود ہے وہاں محنت کش طبقے کی طبقاتی و معاشی آزادی کے عنصر کا زیادہ عمل دخل ہے۔ اس کی واضح مثال 1968-69ء کے انقلاب کا بنیادی کردار سندھی قوم پرستوں اور بیشتر بائیں بازوں کے لیڈروں کی حکمت عملی اور لائحہ عمل کی نفی کررہا تھا۔ ماؤاسٹ نظریات کے بر عکس دیہی علاقوں کی بجائے اس انقلاب کا مرکز سندھ کے شہر تھے، جس کی سب سے زیادہ شدت کراچی میں تھی اور اسکی بنیادیں قومی نہیں بلکہ طبقاتی تھیں۔ سندھ کی قومی تحریک کئی پڑاؤ ڈال کر کے آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب یہاں تمام قوم پرست جماعتوں، جو ماضی میں پنجاب کے خلاف صرف لفاظی کی حد تک محدود ہوا کرتی تھیں، کے تمام بڑے لیڈران نے عمران خان سے لیکر نواز شریف ودیگر سے دوستانے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ جو تھوڑے بہت پڑھے لکھے قوم پرست کچھ عرصہ قبل تک موجود ہوا کرتے تھے آج این جی اوز اور دیگر رجحانات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ان کا کام اب محض دانائی کے پرچار تک محدود ہوچکا ہے۔ ان تمام حضرات کا عالم یہ ہے کہ وہ حالیہ مردم شماری سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ جیسے درست مردم شماری کے بعد سندھ کو اس کے حقوق مل ہی جائیں گے! آج یہاں موجود تمام جماعتیں شدید سیاسی و نظریاتی بحران کا شکار ہیں اور کوئی بھی جماعت آج بلاواسطہ سندھو دیش کا نعرہ نہیں لگاتی بلکہ سب ہی نے اپنے قومی ورجن میں تھوڑی بہت تبدیلی کی ہوئی ہے۔ بشیر قریشی و آریسر کے وقت تک جو تھوڑی بہت سیاسی ساکھ برقرار تھی اب اس کا دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ پھر موجودہ اقتصادی اور معاشی بنیادوں کا اتنا وسعت اختیار کرجانا ہے جن میں قومی بنیادوں پر کوئی حل ممکن نظر نہیں آتا۔ جن لوگوں نے سندھ کے صحراؤں میں گوریلا جنگوں کے ذریعے سندھ کو قومی آزدی دلوانے کا عہد کیا تھا وقت نے ان کو پاکستانی اور پنجابی شاونسٹ حکمرانوں سے بدترین مصالحتیں کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے عرصے میں جہاں اسٹالنزم، اصلاح پسند اور دوسرے سیاسی رجحانات بے نقاب ہوکر مسترد ہوئے ہیں وہاں قوم کی بنیادوں پر کوئی حل نہ ہونے کی حقیقت بھی محنت کشوں پر عیاں ہوئی ہے، اسی لئے تمام تر کوششوں، اشتعال انگیزیوں کے باوجود قوم پرستی کی حمایت ایک مخصوص حد سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ تمام قوم پرستوں کی سماجی بنیادیں کمزور اور کھوکھلی ہورہی ہیں۔
اس تمام تر کیفیت میں پیپلزپارٹی کی مسلسل غداریوں کی بدولت آج سندھ میں ایک شدید سیاسی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی بنیادیں اسی لئے استوار کی گئیں تھیں تاکہ محنت کش طبقے کی جڑت کو ٹھیس پہنچائی جاسکے۔ لیکن پچھلی تین دہائیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ایم کیوایم نے کراچی میں اردو بولنے والی آبادی کی کسی طور پر بھی حقیقی ترجمانی نہیں کی بلکہ انہیں سیاست سے مسلسل دور دھکیلنے کے عمل کو پروان چڑھایا۔ آج حیدرآباد اور کراچی میں اردو بولنے والوں کی سیاست میں عدم دلچسپی بنیادی طور پر ایم کیو ایم کی متعارف کردہ (جرائم، بھتہ خوری و دیگر) سیاست سے عدم دلچسپی ہے۔ اسی کے چلتے آج خود ایم کیو ایم کا اپنا وجود خطرے میں پڑچکا ہے اور اسے مسلسل ’’بڑوں‘‘ کی سرپرستی میں چلایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب کراچی میں پاک سر زمین نام کا ایک اور تماشا متعارف کروایا جاچکا ہے جن کی اپنی سیاست محض الزام تراشیوں سے باہر کچھ نہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایم کیو ایم ہی کی بی ٹیم کے طور پر کام کرے گی، ہر وہ عمل جو ماضی میں ایم کیو ایم کے ذریعے کروایا جاتا تھا اب انہیں دے دیا جائے گا اور وہ تمام جرائم پیشہ افراد جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہوا کرتا تھا اب انہیں واپس نئے نام سے مارکیٹ میں فروخت کرنے کی شروعات کی جاچکی ہے۔ ایم کیو ایم کی صفائی مہم ہو یا مصطفی کمال کے دھرنے، ان سبھی لوگوں کو کراچی کی عوام نے آزمایا ہوا ہے۔ ان کی نہ کوئی حقیقی بنیادیں سماج میں موجود ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی بڑا کردار آنے والے دنوں میں رونما ہونے کے امکانا ت ہیں۔ کراچی کی ڈیموگرافی جس قدر پچھلے بیس سالوں میں تبدیل ہوئی ہے اب یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کسی بھی ایک قوت کے ذریعے شہر کو کنٹرول کیا جاسکے، لہٰذا تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، پاک سر زمین، ایم کیو ایم و دیگر جماعتیں، جس کی جہاں اور جیسے ضرورت ہوگی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
آنے والے کچھ عرصے میں الیکشن کا اسٹیج سجنے والا ہے جہاں ہر فنکار اپنی فنکاری کا مظاہرہ کرے گا۔ ممکن ہے کہ عبوری حکومت میں کچھ اہم تبدیلیاں رونما ہوجائیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ آنے والے الیکشن کے نتائج چاہے جو بھی ہوں آج سندھ میں کسی طور پر بھی کوئی ایک سیاسی جماعت موجود نہیں جو اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے یا عوام کی امنگوں پر کھرا اترنے کی کیفیت میں ہو! عوام کی اکثریت نے اب انتخابی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔ آج ضرورت عوام کے حقیقی دکھوں اور دردوں کو محسوس کرنے والی انقلابی پارٹی کی ہے جو اسی سماج میں تعمیر ہونی ہے، آج نوجوان سیاست سے دور ضرور ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ لمبے عرصے تک اس کیفیت میں رہا جاسکے۔ کراچی سے خیبر تک پورے ملک میں بربریت کا سماں چھایا ہے، حالات و واقعات کے پیش نظر آج انقلابی تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے۔ محنت کش طبقہ اپنی طاقت کا اظہار کئی بار کر بھی چکا ہے لیکن جنوبی ایشیا سمیت پوری دنیا آج حقیقی انقلابی قیادت کے بحران کی زد میں ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر ہمیشہ تہذیبوں کا امین رہا ہے، یہاں موہن جو دڑو جیسی قدیم و عظیم تہذیبیں پروان چڑھیں، یہاں بسنے والے انسان نہ ہی ہمیشہ سے قومی، لسانی اور مذہبی تفریق کی زد میں تھے اور نہ ہمیشہ رہیں گے۔ ایک حقیقی انقلابی قیادت انہی تفریقوں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھے گی اور ایک حقیقی غیر طبقاتی معاشرہ ہی انسانیت کا مقدر بنے گا۔