تحریر: لال خان
حکمران طبقات کی بوسیدہ اور فریبی سیاست کی کشمکش میں پیپلز پارٹی کی قیادت پوری تگ ودوسے اپنا مقام بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ سازشوں اور الٹ پلٹ ہونے والی اس سیاست میں ان معاملات کے ماسٹر مائنڈ اپنی پوری مہارت کو استعمال کررہے ہیں۔ وہ اس پالیسی پر کارفرما ہیں کہ کسی طرح نواز لیگ آؤٹ ہوجائے اور سامراجیوں اور ریاست کے کلیدی اداروں کے لئے وہ پارٹی کو تابعداربنا کر پیش کرسکیں۔ اقتدار کے حصول کے لیے اس سے آسان راستہ کیا ہوسکتا ہے۔ میڈیا کی کوریج بھی مل جاتی ہے، انتخابات کے نتائج بھی مخلوط حکومت کیلئے بن جاتے ہیں۔ زیادہ زور بھی نہیں لگانا پڑتا اور جب آقاؤں کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائی جاتی ہے تو پھر سیاسی ’ایلیکٹ ایبل‘ اشرافیہ خود بخود الیکشن میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ اقتدار میں حصہ داری کے امکانات کے روشن ہوتے ہی پہلے والے انویسٹر ز کے ساتھ ساتھ نئے نئے فنانسر زبھی آتے رہتے ہیں۔ جہاں کوئی موٹی آسامی نہیں ملتی وہاں کسی درمیانے طبقے کے فرد کو ٹکٹ اور پیسے دونوں دے کر خانہ پُری بھی کی جاسکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت واضح طور پر اب اس’’نظریے‘ ‘ اور یقین کے ساتھ اپنی ساری ساکھ کاداؤ‘ اس ریاستی اور سامراجی ذرائع کے طفیلی اقتدار کے حصول کے لیے لگارہی ہے۔
پاکستان کے موجودہ طبقاتی معاشرے میں حکمرانوں کے ’’عرش‘‘ کی سیاست بڑی آسان اور سہل ہوتی ہے۔ محنت کشوں کی سیاست بہت زیادہ محنت اور قربانی مانگتی ہے۔ اس ’’ فرشی‘‘ سیاست میں بہت پڑھنا بھی پڑتا ہے۔ نظریات کو سمجھنا اور سمجھانا پڑتا ہے۔ سیکھنا اور سکھانا بھی پڑتا ہے۔ مختلف سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی پالیسیوں پر بہت سی بحثیں کرنی پڑتی ہیں۔ کارکنان کو تیار کرکے انقلابی کیڈر بنانا پڑتا ہے۔ اپنا سب کچھ لٹانا پڑتا ہے۔ اختلاف رائے اور اتفاق کے پُرپیچ اور تلخ عمل سے گزر کر پالیسیاں اور لائحہ عمل مرتب کرنے پڑتے ہیں۔ بالادست طبقات اور انکے تحفظاتی اداروں سے سنجیدہ اور اذیت ناک ٹکراؤ بہت جرات، عزم اور جانفشانی مانگتے ہیں۔ تحریکوں کے عروج و زوال کی کیفیتوں میں اپنی قوتوں کو نئی سے نئی حکمت عملی کے تحت‘ ادراک دلوا کے تیار بھی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ہراول دستوں کو ٹھہرانا پڑتا ہے تو کبھی پوری تحریک کو اس نظام اور معاشرے کی دلدل سے کھینچ کر نکالنا اور آگے بڑھانا بھی پڑتا ہے۔ جیلیں، کوڑے اور تشدد بھی سہنے پڑتے ہیں، اپنے عزیزواقارب سے کبھی دوری اور کبھی ناراضی بھی مول لینی پڑتی ہے۔ نامسائد حالات اور تاریک معروض میں بھی انقلابی سوشلزم کی شمعیں جلائے رکھنا پڑتی ہیں۔ واقعات اور تاریخ کی کسوٹی پر ان نظریات کی سچائی کو ثابت بھی کرنا پڑتا ہے اور اس کا یقین محکم رضاکارانہ طور پردلوں میں سرائیت بھی کروانا پڑتا ہے۔ دس دس روپے کے چندے سے پارٹیاں چلانی پڑتی ہیں اور مزدوروں اور غریبوں کی پارٹی کو انہی کی طاقت اور حمایت تک ہی مرکوز رکھنا پڑتا ہے۔ ایسے وقت بھی آتے ہیں جب معاشرے اور زمانے کے اقدار،اخلاقیات اور تہذیب پر جھوٹ، فریب اور بدعنوانی حاوی اور مسلط ہوجاتے ہیں۔ ان اندھیروں کے تھپیڑوں میں سچائی کے دیئے کی روشنی کو دھیما ہونے سے بھی بچانا پڑتا ہے۔ محنت کشوں اور برباد انسانوں سے سچے دل وجان سے عاجزی اور محبت رکھنی پڑتی ہے۔ جابرحکمرانوں اور دولت کے دھنوانوں کے سامنے ڈٹ بھی جاناپڑتا ہے اور اسکے نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔
سوائے محنت کشوں اور نظریاتی ساتھیوں کے آپ کا ہوتا کون ہے؟ مشکل وقتوں میں بڑے بڑے ’انقلابی سورمے‘ کہیں بھی بِک جاتے ہیں، کہیں جھک جاتے ہیں اور کہیں آپ کو بھی بیچ دیتے ہیں۔ کبھی وار باہر سے ہوتے ہیں تو کبھی اندر سے چھرے گھونپے جاتے ہیں۔ ایسی سیاست اور نظریات پر سفر آجکل کے دور میں بھلا کوئی کرتا ہے؟ لیکن جب سے اس طبقاتی معاشرے کا جنم ہوا ہے یہ سیاست بدترین ادوار میں بھی موجود ہی رہی ہے۔ نہ کوئی جابر اس کو مار سکا ہے نہ ہی کوئی حکمران اس کو مٹاسکا ہے۔
ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی میں یہ نظریاتی سیاست ہوا کرتی تھی۔ ایک ایسا نظریہ جو زندگی کو زندگی سے بڑے مقصد کے لیے وقف کردینے والا ہوتا ہے۔ اسکی بہت سی مثالیں پیپلز پارٹی میں ہیں‘ بہت سے نام ذہن کے دریچوں میں گونجتے ہیں اور انکے اقوال یاداشت میں کہیں نہ کہیں زندہ رہتے ہیں۔ کرسٹینا لیمب نے 1989ء کی اپنی شہر ہ آفاق تصنیف ’’اللہ کا انتظار‘‘ (Wating for Allah) میں لکھا تھا کہ ’’اگر آج بھٹوقبر سے واپس آکر دیکھے تو وہ اپنی پیپلز پارٹی کو پہچان نہیں سکے گا۔‘‘ لیکن اگر وہ آج 2017ء میں آجائے تو اسکو کیا صدمہ پہنچے گا اس کا اندازہ پارٹی کے کارکنان اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔ اس کے قتل پر مٹھائیاں بانٹنے والے آج پیپلز پارٹی کے بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔ سارے عرصے میں’’بھٹو کے عدالتی قتل‘‘ کا نعرہ دینے والی پارٹی کی موجودہ قیادت کس قدر تابعدار اور فرمانبردار ہوگئی ہے۔ ان کو ’’اداروں‘‘ کے تقدس کا کتنا احترام ہے! اگر انکے موجودہ بیانات کا جائزہ لیا جائے تو اب پیپلز پارٹی کو یہ’’عدالتی قتل‘ ‘ والا راگ الاپنا چھوڑ دینا چاہیے کہ کہیں اس سے قیادت کی طرف سے کی جانے والی اُن قوتوں کی تعظیم میں کچھ کمی نہ آجائے۔ نواز شریف تو ضیاالحق کی پیداوار تھا ہی لیکن پیپلز پارٹی میں یوسف رضا گیلانی سے لے کر رحمان ملک تک، ضیا الحق کی کاسہ لیسی کرنے والے آج پیپلز پارٹی میں کلیدی فیصلے کررہے ہیں۔ اس سیاست، ریاست اور صحافت میں ہر طرف ضیا الحق کی پیداوار ہی تو حاوی ہے۔ لیکن اس ’’عملی‘ ‘ سیاست میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس سے کیا غرض ہے۔ ایسی’ نظریاتی‘ سیاست کا کیا فائدہ جس میں’’ حاصل‘ ‘ کچھ نہیں ہے۔ بس اتنے ’’بائیں بازو‘ ‘ کے نظریات درکار ہیں جو اس سسٹم میں فٹ بیٹھ جائیں۔ اگر مزدوروں کی حالت خراب ہے تو ان کو ملوں اوراداروں میں حصص دے دیئے جائیں، اس سے انکی زندگیاں سنور جائیں گی وہ مزدور سے مالک بن جائیں گے! یہ تو 1789ء کی ملکہ فرانس ’میری انٹونٹ‘ کے نظریات ہیں جس کو جب پتہ چلا کہ یہ مجمع اس لیے احتجاج کررہا ہے کہ وہ روٹی سے محروم ہیں تو اس نے اپنے اہل کاروں سے استفسار کیا کہ ان کو روٹی نہیں ملتی تویہ ’’کیک‘‘ کیوں نہیں کھاتے! ویسے بھی نظریاتی اور محنت کش طبقے کی نجات والی انقلابی سوشلسٹ سیاست بحریہ ٹاؤن کے قلعہ نما علاقہ جات سے نہیں نکلا کرتی۔ یہ تو گلیوں ،کوچوں، فیکٹریوں، دیہاتوں اور جھونپڑیوں میں ہوتی ہے اور وہیں سے انقلاب کے روز محشر ابھرتے ہیں۔ اتنے پر تعیش ایوانوں میں جہاں سہولیات اور عیاشی کے سامان کی بھرمار ہو‘ وہاں کی سیاست کا مزہ اور ہوتاہے۔ انکو غریبوں اور محنت کشوں کی ایسی کٹھن سیاست کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں الزام تراشیوں اور کرپشن کے خلاف تقریریں کرکے پھر پرتعیش محلات میں کبھی پلاٹوں‘ فیکٹریوں کی خر ید و فر و خت ، پرمٹوں ا و ر ٹھیکو ں کے سو د ے اور لچر قسم کے لطیفے اور طنزیہ گفتگو میں محو ہوجاتے ہیں۔ یہاں نظریات کی بجائے شخصیات پر بحثیں ہوتی ہیں۔ فٹنس اور جم میں ظاہری جسامت کو خوبصورت اور فعال بنانے کی مشاورتیں ہوتی ہیں۔ لیکن ان توانا اورفعال جسموں کی روح، احساس اور ضمیر مردہ ہوتے ہیں۔
اس ’عرش‘ پر غربت کے فرش سے زیادہ نحوست ہے۔ تمام تر مسکراہٹوں اور خوشبوؤں کے باوجود ماحول غلیظ ہے، روح کھوکھلی اورغریب ہے۔ لیکن فرش کی سیاست اس حکمران سیاسی تھیٹر سے شدید اکتاہٹ اور برہمی کا شکار بھی ہے۔ بغاوت مچل رہی ہے۔ اور جب غریبوں کے اس فرش کی سیاست سے ’’پیپلز‘ ‘ کی ’’پیپلز پارٹی‘ ‘ چاہے کسی نام سے بھی ابھرے گی تو وہ اس منزل سے ہمکنار ہو گی جس سے 1968-69ء کی پیپلز پارٹی محروم رہی تھی۔