ہندوستان: الیکشن یا پیسے والوں کی ’سلیکشن‘؟
انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام عملاً ایک ہی ہے۔
انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام عملاً ایک ہی ہے۔
اتنی بربادی اور تباہی پھیلانے کے بعد یہ ’’مذاکرات‘‘ کروڑوں متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
ہنستے بستے سماجوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد یہ سامراجی خود دم دبا کے بھاگ رہے ہیں۔
ڈھائی سال مکمل ہوچکے لیکن اس کے باوجود بھی برطانوی حکومت یورپی یونین سے علیحدگی کے بارے میں کوئی معاہدہ کرنے میں ناکام رہی۔
بولسنارو جیسے دائیں بازو کے پاپولسٹ کا ابھار بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی ناکامی کا نتیجہ ہی ہے۔
بٹوارے کی سات دہائیوں بعد تاریخ کا کوئی ناقابلِ تردید سبق ہے تو وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ان سماجوں کو آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہے۔
شمالی کوریا کی ریاست کو فی الوقت اگر کسی طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے تو وہ پھر ’’مسخ شدہ مزدور ریاست‘‘ ہی ہے۔
سعودی عرب میں ایک بار پھر شدید اذیت میں زندگی بسر کرنے والے غیر ملکی محنت کشوں کو نکالنے پر زور دیا جارہا ہے۔
میکرون کی نیو لبرل سرمایہ دارانہ حکومت کے خلاف یہ بغاوت تیزی سے مختلف شعبوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔
اس کسان مارچ میں ریاست بھر کے ہزاروں کسان شریک ہوئے جوکہ انقلابی نعروں سمیت حکومت کی ناکامی کے خلاف نعرے بلند کر رہے تھے۔
ایم کیو ایم کا حالیہ تنازعہ یوں تو کامران ٹیسوری کے گرد گھومتا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا دکھایا جا رہا ہے۔
حالیہ انتخابات میں عوام کی خاطر خواہ شرکت کو شاید کچھ حلقوں میں ’’جمہوریت‘‘ کی کامیابی گردانا جا رہا ہے لیکن اِس سے نیپالی عوام، بالخصوص نوجوانوں کے بائیں جانب جھکاؤ اور دباؤ کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
پیداوار، رسد اور مالیات پر مکمل ریاستی کنٹرول قائم کئے بغیر حالیہ بحران سے نہیں نکلا جا سکتا۔
ان جعلی لڑائیوں کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول اور غریب عوام کو بربادیوں میں دھکیلتے ہوئے اس نظام زر کی رکھوالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
تاثر یہ دینے کی کوشش کی جارہی کہ جیسے افراد کی گنتی مکمل ہوتے ہی ملک کے تمام مسائل پلک جھپکتے ختم ہوجائیں گے۔