سعودی عرب: ’وژن 2030ء‘ اور غیر ملکی محنت کش

تحریر: راہول

سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کو بظاہر تو عالمی معاشی بحران سے کوئی فوری اور شدید نقصان نہیں پہنچا تھا لیکن بعد ازاں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے یہ ریاستیں معاشی بحران کی زد میں آگئیں۔ یہ بحران درحقیقت سرمایہ داری کی عالمی زوال پذیری اور عالمگیر معاشی بحران کا ہی تسلسل ہے جو مختلف ممالک پر مختلف اندازمیں اثر انداز ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کی آمدن کا 90 فیصد تیل کی برآمد سے وابستہ ہے اور گزشتہ کچھ عرصے کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمتوں نے ایسی ریاستوں میں شدید بحران پیدا کردیا ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں سعودی عرب میں بیروزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دو سال قبل بیروزگاری کا پہلا وار انتہائی تلخ حالات میں قلیل اجرتوں پر کام کرنے والے ایشیائی مزدوروں پر ہوا تھا اوربڑی تعداد میں مزدور یہ ریاستیں چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اسی طرح گزشتہ برس تیل کی قیمتوں میں اچانک کمی سے سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح میں 12 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ریاست میں بڑھتی بیروزگاری اور تیل کی قیمتوں میں عالمی طور پر جلد کوئی اضافہ نہ ہوسکنے کی وجہ سے تیل پرانحصار کو کم سے کم کرنے پرزور دیا گیا اور اُن ذرائع کی کھوج شروع کی گئی جن سے معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکے اور تمام شعبہ جات کو ملک میں دوبارہ ترقی دی جاسکے تاکہ معاشی خسارے، بیروزگاری اور ممکنہ بحران زدہ کیفیت سے نمٹا جاسکے۔ اسی صورتحال سے کا سامنا کرنے کے لئے 2016ء کے اواخر میں ’وژن 2030 ء‘ کے نام سے معاشی و سماجی اصلاحات کا ایک دیو ہیکل پروگرام تشکیل دیا گیا جسے ولی عہد کی طلسماتی قوت اور سوچ کی پیداوار قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی پروگرام کے تحت عورتوں کو گاڑی چلانے سے لیکر فیشن انڈسٹری کے اجرا اور سینما گھروں تک کی اجازت جیسے اقدامات کیے گئے جس سے سعودی عرب کی معیشت کی بحالی کے دعوے اور ولی عہد کی واہ واہ ہر جگہ چرچوں میں ہے۔ کہا کچھ یوں جا رہا ہے کہ سعودی ولی عہد اور اقتصادی وترقیاتی کونسل کے چیئرمین شہزادہ محمد بن سلمان کی کوششوں سے معیار زندگی میں اضافے کے پروگرام سمیت کئی پروگرامز کی جلد ہی تکمیل ہوجائے گی۔
اسی’’ترقی ‘‘ پروگرام کے چلتے نئے ہجری سال کی شروعات سے سعودی وزارت لیبر برائے سماجی ترقی نے غیر ملکیوں پر متعدد شعبوں میں کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پابندی کی زد میں آنے والے شعبوں میں گھڑیوں کی دکانیں ، چشموں کی دکانیں، کارپٹ، آٹوموبائل اور موبائل فونز کی دکانیں شامل ہیں۔ ایسی دکانیں جن میں گھروں اور دفاتر کے لیے فرنیچر بیچا جا رہا ہے بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان کے علاو ہ ریڈی میڈ گارمنٹس، بچوں کے کپڑے کی دکانیں ، گھریلو برتنوں کی دکانیں اور پیسٹری کی دکانوں پر کام کرنے والے غیر ملکی ملازمین پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان شعبوں کی تعداد ساٹھ کے قریب ہے جن پر پابندی عائد ہوگی حالانکہ حکومت اسے صرف انیس تک تسلیم کررہی ہے۔
دراصل سعودی حکومت نے گزشتہ سال سے جاری ’’سعودائزیشن‘‘ پر عملد ر آمد کی رفتار تیز کر دی ہے اورموبائل فونز کے شعبے میں کامیاب سعودائزیشن کے بعد مزید شعبوں میں غیر ملکی شہریوں کو نکال کر سعودی شہریوں کو ملازمت کے مواقع دیئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب کی وزارت خزانہ نے 2018ء سے نجی کمپنیوں کے تارکینِ وطن ملازمین اور مزدوروں پر ایک اضافی ماہانہ ٹیکس کے نفاذ کا اعلان بھی کیا ہے۔ وزارت خزانہ نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کہا ہے کہ غیرملکی ملازمین پر عائد کیے جانے والے اس ٹیکس کی مالیت تین سو سے چار سو ریال کے درمیان ہوگی اور یہ نجی شعبے کی کمپنیاں ادا کریں گی۔ وزارت خزانہ نے گزشتہ سال مزید کہا تھا کہ 2019ء میں نجی کمپنیوں کے غیر ملکی ملازمین پر 600 سعودی ریال ٹیکس عائد کیا جائے گا اور 2020ء میں اس میں مزید 200 کا اضافہ کرکے اس کی مالیت 800 ریال کردی جائے گی۔ تاہم جن کمپنیوں میں غیر ملکی ملازمین کی تعداد مقامی ملازمین کی تعداد سے کم ہوگی ان پر 2018ء میں 300 ریال ٹیکس عائد کیا جائے گا اور یہ رقم بتدریج بڑھا کر 2020ء میں 700 ریال کردی جائے گی۔ دراصل اس ٹیکس کے نفاذ کا مقصد نجی شعبے میں کام کرنے والے غیرملکی ملازمین اور مزدوروں کی جگہ مقامی شہریوں کو روزگار دلانا ہے کیونکہ بھاری ٹیکسوں کے نفاذ کی وجہ سے ان کے لیے سعودی عرب میں کام کرنا مشکل ہوکر رہ جائے گا۔ وہ ماہانہ تنخواہ میں صرف اپنا ہی پیٹ پال سکیں گے اور ان کے لیے آبائی ممالک میں اپنے خاندانوں کو رقوم بھیجنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔ اسی طرح جو لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں وہ بھی فی فرد کے حساب سے یہ رقم ادا کریں گے۔ بینکنگ کمپنی کی ایک رپورٹ کے مطابق اندازہ لگایا جارہا ہے کہ 2020ء تک تقریبا چھ لاکھ ستر ہزار غیر ملکی سعودی عرب چھوڑ کر جاچکے ہونگے۔ اسی رپورٹ میں مزید اندازہ لگایا گیاکہ تقریباً ایک لاکھ 65 ہزار غیر ملکی ہر سال سعودی عرب چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
گروپ 20 کے رکن ممالک میں سے سعودی عرب میں آبادی میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ ہے جوکہ 2.5 فی صد سالانہ ہے۔ یہ ان ممالک میں سب سے زیادہ شرح ہے جن کی آمدن کا انحصار صرف ایک ذریعے پر ہے۔ اسی لیے سعودی وژن 2030ء کے تحت معیشت کو متنوع بنانے اور تیل کی معیشت پر انحصار کم کرنے کے لیے آمدن کے نئے ذرائع تلاش کیے جارہے ہیں۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس وقت سعودی عرب کی کل آبادی میں 15 سے 34 سال کی عمر کے افراد کی تعداد 33.9 فی صد ہے اور 30 سال سے کم عمر برسر روزگار افراد کی تعداد 48 فی صد ہے۔ سرکاری اور نجی جامعات ،کالجوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کی تعداد 16 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہر سال ساڑھے تین لاکھ طلبہ اعلیٰ ڈگریوں کے ساتھ فارغ التحصیل ہورہے ہیں اور روزگار کی تلاش میں سرگرداں اتنے مزید افراد کا سالانہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
اسی تمام صورتحال کو جواز بنا کر سعودی عرب میں ایک بار پھر شدید اذیت میں زندگی بسر کرنے والے غیر ملکی محنت کشوں کو نکالنے پر زور دیا جارہا ہے۔ بحران کے آغاز میں پہلے ہی محنت کشوں کی تنخواہیں روکی گئیں اور ان کے پاس سوائے اپنے ممالک میں لوٹنے کے اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ اسی طرح گزشتہ عرصے میں بیروزگار ہونے والے محنت کش اپنے ممالک کو واپسی کے لئے دھکے کھا رہے ہیں بلکہ خلیجی ممالک میں جن کا روزگار فی الوقت بچا ہوا ہے ان کی بھی اجرتوں میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں اور ان کے لیے سخت سے سخت قواتین لاگو کئے جارہے ہیں۔ جبکہ لیبرقوانین محض کاغذی ہیں۔ بیشتر محنت کشوں کی زندگیاں اور کام کے اوقات کار و حالات غلام داری سے بھی بد تر ہیں۔ 50 ڈگری سنٹی گریڈ پر کام کرنے کے باوجود بھی وہ خود کو ایک بہتر زندگی دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ رہائش اور خوراک بھی انتہائی ذلت آمیز ہوتی ہے۔
ٰغیر ملکی محنت کشوں کو یہاں سے نکالنے کی منصوبہ سازی بظاہر تو سعودی عوام میں دلکش اورپرکشش محسوس ہوتی ہیں لیکن آبادی اور خاص طور پر ورکنگ فورس کا جائزہ لیا جائے تو یہ آسانی سے بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف غیر ملکی محنت کشوں بلکہ سعودی عوام اور بالخصوص سعودی معیشت کے لئے کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ حالیہ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت سعودی عرب کی آبادی 32.6 ملین ہوچکی ہے جس میں گزشتہ دو سالوں میں تقریبا آٹھ لاکھ ستر ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ ان اعداد میں سعودیوں کی آبادی 20.4 ملین جبکہ غیر سعودیوں کی آباد 12.2 ملین کے لگ بھگ ہے۔ اگر ورکنگ فورس کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت سعودی عرب کی کُل ورکنگ فورس 13.5 ملین ہے جس میں 5.8 ملین سعودی جبکہ 7.7 ملین غیر سعودی شامل ہیں جبکہ تیس لاکھ سعودی بیروزگاری کا شکار ہیں۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آبادی اور ورکنگ فورس کے ایک بڑے حصے کو اگر نکال دیا جائے تو اس کے اثرات سماج کے تمام شعبوں پر پڑیں گے۔ اس سال ان شدید قوانین سے تنگ آکر 1 لاکھ 65 ہزار تارکین وطن سعودی عرب چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے جبکہ جو لوگ یہاں بچیں گے انہیں شدید تلخ صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا۔ حکومت کی ادا کی گئی تمام رہائش ، صحت و دیگر سبسڈیز کو اب صرف سعودیوں تک محدود کردیا گیا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ جولائی 2019 ء تک ہر چار میں سے صرف ایک غیر سعودی ہی یہاں رہ پائے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف جہاں السعود خاندان 2030ء جیسے وژن پر کارفر ہے وہیں موجودہ صورتحال کو بالکل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ دراصل یہ صورتحال سب سے پہلے رئیل اسٹیٹ پر اثرانداز ہوگی جہاں گھروں کے کرایوں میں فوری طور پر پچاس فیصد سے بھی زیادہ کمی متوقع ہے۔ اسی طرح کچھ ہی عرصے میں ٹرانسپورٹ ، ایئرلائنز ، کنسٹرکشن کمپنیوں اور کاروں کے کاروبار اور ان سے حاصل ہونے والی رقوم میں تیزی سے کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی سال کے اختتام پر کئی کاروبار خاص طور پر سستے کھانوں کی ہوٹل تیزی سے بندہونے کا امکان ہے۔ اس ساری صورتحال کا سعودی عوام پر اس قدر گہراثر ہوگا کہ انہیں ہر وہ کام کرنا پڑے گا جو شاید پہلے انہوں نے کبھی نہ کیا ہو اور نہ ہی وہ اس کے لئے تیار ہیں۔ لیکن سب سے اہم یہ کہ سعودی شہری کیا ان اجرتوں اور ان حالات میں کام کرنے پر تیار ہوں گے جن میں غریب ممالک کے محنت کش اپنی قوت محنت بیچتے ہیں؟ اسی طرح کیا سعودی عرب کی مقامی آبادی اتنی ہنر مند اور جفاکش ہے کہ غیر ملکی محنت کشوں کی جگہ لے سکے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہی بنتا ہے۔ یوں سعودی حکمرانوں کے منصوبے شاید اس طرح کبھی بھی عملی جامہ نہ پہن پائیں گے جس طرح وہ دعوے یا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ لیکن ان اقدامات سے سعودی عرب میں مقامی افراد پر مشتمل محنت کش طبقہ ضرور پھلے پھولے گا جس سے طبقاتی جدوجہد ایک نئی جہت اختیار کرے گی۔
اگر سعودی عرب سے ان مزدوروں کو نکالا جاتا ہے تو اس کے اثرات لازمی طور پر ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، فلپائن ، یمن و دیگر ریاستوں پر بھی پڑیں گے۔ صرف ترسیلات زر میں کمی سے ان معیشتوں کو بڑا دھچکا لگے گا اوربیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔ یوں سماجی و معاشی بحران بھی شدت اختیار کرے گا۔ اس وقت پاکستان میں ترسیلات کا بڑا ذریعہ سعودی عرب ہے جہاں سے سالانہ 5.8 بلین ڈالر تک وصول ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان جوکہ دنیا میں سب سے زیادہ ترسیلات کے حوالے سے جانا جاتا ہے کا بھی تقریباً 28 فیصد صرفْ سعودی عرب سے آتا ہے۔ کشمیر سمیت پاکستان کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جن کی معیشت کا دارومدار ہی ان ترسیلات پر ہے۔ پہلے ہی معاشی بحران گہرا ہے۔ اب اس میں مزید شدت آئے گی اورسب کی زندگیاں اور تلخ ہوں گی۔
آج پوری دنیا سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسی کیفیت میں داخل ہوچکا ہے جہاں اس نظام کو بچانے کے لئے جو کچھ بھی کیا جائے وہ اپنے الٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جس ’وژن2030 ء‘کو سعودی حکمران اپنے حالات بہتر بنانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ نئے تضادات اور بحرانات کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔ درحقیقت یہ وژن نجکاری، معاشی و سماجی لبرلائزیشن، ریاستی سرمایہ کاری، نجی شعبے کو کھلی چھوٹ دینے، بیرونی سرمایہ کاری کے حصول اور رئیل سٹیٹ و مالیاتی سرمائے کے پھیلاؤ کے ذریعے معیشت کو چلانے جیسے منصوبوں پر مبنی ہے۔ لیکن سرمایہ داری جس عالمی بحران کا شکار ہے اس کے پیش نظر سعودی عرب کو ’دبئی‘ بنانے کی اِن کوششوں کا مستقبل کچھ زیادہ کامیاب معلوم نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں سماجی لبرلائزیشن کے جو اقدامات اور اکھاڑ پچھاڑ شہزادہ سلمان کی جانب سے جاری ہیں اس نے سعودی ریاست کے اندر بھی دراڑوں کو بہت گہرا کر دیا ہے۔ شاہی خاندان کی اندرونی لڑائیوں میں تیزی آرہی ہے جو کسی بھی وقت بے قابو ہو کر پھٹ سکتی ہیں اور ایک دھماکہ خیز صورتحال کو جنم دے سکتی ہیں۔