بنگلہ دیش: ’ترقی‘ کا تشدد
بنگلہ دیش میں جمہوریت کا ڈھونگ خود اس کے معماروں نے بے نقاب کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش میں جمہوریت کا ڈھونگ خود اس کے معماروں نے بے نقاب کر دیا ہے۔
کچھ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ 72 سال بعد اب پہلی مرتبہ پاکستان سے ’کرپشن کا خاتمہ‘ ہونے کو ہے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آکر اگر کسی طبقے کا نام لینے تک سے بھی اجتناب کیا ہے تو وہ ’’مزدور طبقہ‘‘ ہے۔
موصوف نے 1970ء کی دہائی میں بھٹو حکومت کی نیشنلائزیشن کو پاکستان کی تاریخ کا ’’بدترین معاشی جرم‘‘ قرار دیا ہے۔
انہی ’’کمی کمینوں‘‘ کو جب اپنی طاقت اور ذلت کا احساس ہوا تو پھر یہ جاگیردار اور سرمایہ دار چھپتے پھر رہے تھے۔
’’جو قاعدے میں رہے گا وہی فائدے میں رہے گا۔‘‘
اس اقتدار میں آنے کے لئے سفاک اور پتھر دل ہونا لازم ہے۔
پاکستانی سماج کی سرکاری تاریخ حکمران طبقات کی تاریخ ہے۔ 1968-69ء کے ادھورے انقلاب کی تاریخ یہاں کے محنت کشوں کی تاریخ ہے۔
اس بحران کی بڑی وجہ بیرونی طاقتوں بالخصوص بھارت اور چین کی سری لنکا میں مداخلت اور مفادات کی جنگ ہے۔
ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے کسی حکومتی ایما یا اشارے کے بغیر اپنے طور پر ہی خاشقجی کو قتل کر دیا ہے!
نہ صرف ہماری یادوں میں بلکہ منطقی انجام تک جاری سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں بھی جاوید ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔
محنت کش طبقات میں شاید ہی کوئی انسان پیسے کی اِس جمہوریت کے بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اپنا ’’نمائندہ‘‘ تصور کرتا ہو گا۔
یہ پچھلی حکومت کی کرپشن کا واویلا ابھی تک کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے اور اسی شور میں ان کے قائدین کرپشن کے نئے ریکارڈ بنا چکے ہونگے۔
جدلیاتی طور پر چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور سستی لیبر والا یہی چین آج مغرب کے سامنے ایک معاشی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔
نریندرا مود ی اب مذہبی منافرتوں کو نئی ہولناک انتہاؤں پر لے جانا چاہتا ہے جس سے وہ ہندو بنیاد پرستی کی وحشت کو ابھار کر 2019ء کا انتخاب جیت سکے۔