’لوڈر‘

تحریر: لال خان

جمہوریت کے بلندوبانگ مندروں اور دھنوانوں کی پارلیمنٹ میں جاری طوفان بدتمیری‘کالے دھن کی پیداوار سیاستدانوں کے کردار اور وحشیانہ نفسیات کو بے نقاب کر رہا ہے۔ ’نئے پاکستان‘ کے وفاق اور پنجاب کے وزرائے اطلاعات و ثقافت نہ صرف اس رجعت کی غمازی کررہے ہیں بلکہ موجودہ عہد کے کردار کی تصویر کشی بھی کر رہے ہیں۔ مشاہد اللہ‘ جو پی آئی اے کا سابقہ ملازم ہے‘ کو جو یہ وزرا سب سے بڑا طعنہ ’’لوڈر‘‘ ہونے کا دے رہے ہیں۔ معاشرے پر مسلط موجودہ دور کی سیاست اور دانش کا معیار ان بیانات سے باآسانی جانچا جاسکتاہے۔ ان وزرا نے مذہبیت اور لبرلزم کے فرسودہ امتزاج پر مبنی نودولتیوں کی اس حکومت میں محنت کشوں کی جانب پائی جانے والی تضحیک اور منافرت ظاہر کی ہے کہ یہ مزدوروں اور دہقانوں کونیچ اور کمی کمین سمجھتے ہیں۔ اس منافرت کی شکار وسیع اکثریت کی محنت سے ہی سماج اور انسانی زندگی کو زندگانی ملتی ہے ‘لائٹیں جلتی ہیں‘ کارخانے چلتے ہیں‘ سروسز مہیا ہوتی ہیں‘ ریلیں چلتی ہیں۔ اگر انسانی محنت کا عنصر معاشرے سے نکال دیا جائے تو یہ سماج جام ہو کر کاروبار زندگی سے ہی محروم ہوجائے گا۔ یہ ’لوڈر‘ بھی گندم اور غذائی اجناس سمیت کئی ضروریاتِ زندگی اپنی پیٹھوں پر لاد کر نقل وحرکت سے معاشرے کو بہم پہنچاتے ہیں۔ وہ اپنا خون پسینہ بہا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں‘کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ‘کسی سے بھیک نہیں مانگتے۔ لیکن آج ایک ایسا وقت آن پہنچا ہے کہ لوڈرہوناگالی بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ ان دونوں وزرا کے پاس اچانک آئی دولت کا ذریعہ محض بیہودہ طنز‘ دوسروں کی تضحیک‘سیاسی حریفوں پر گھٹیا جملے کسنا‘ مذہبی اور رجعتی رحجانات سے منافرتیں پھیلانا‘ لبرل ازم کا ڈھونگ کرنا اور اندر سے قدامت پرستانہ نفسیات کا حامل ہونا اور سب سے بڑھ کر کاسہ لیسی اور اپنے ان داتا کو ایک بھگوان اور دیوتا بنا کر پیش کرنا ہے۔ انکے دفاع میں عمران خان کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ آج کے حکمرانوں کے پاس کوئی بہتری کا پروگرام ‘لائحہ عمل اور کسی قسم کی منصوبہ بندی ہی نہیں ہے۔
لیکن یہ حکمران بھی کون ہیں؟پچھلے کچھ عرصے سے سیاست، معاشرے اور ریاست کے دوسرے شعبوں پر براجمان حکمرانوں میں یہ تاثر شدت اختیار کرگیا ہے کہ ’’ہم جدی پشتی اور خاندانی رئیس ہیں!‘‘ پہلے تو یہ اس احساس کمتری کا اظہار ہے کہ تاخیر سے اورزیادہ دولت آنے کی وجہ سے یہ پرانے دولت مندوں کی صفوں میں اپنی جگہ بنانے اور حکمران طبقات کا حصہ بننے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن پھر پرانے حکمران طبقات آخر کون ہیں؟ تاریخی اعتبار سے یہاں کے جاگیردار اور سرمایہ دار نہ تو جدی پشتی ایسے تھے اورپھر جس دونمبر طریقے سے سامراجی گماشتگی میں انہوں نے یہ ’’رتبے‘‘ حاصل کیے وہ جعلی اور فراڈ پر مبنی طریقہ واردات سے حاصل ہوئے ہیں۔ برصغیر جنوب ایشیا اور آس پاس کے خطوں میں تاریخی طور پر کبھی بھی کلاسیکی جاگیرداری آئی ہی نہیں تھی۔ یورپ اور دنیا کے دوسرے علاقوں کے برعکس یہاں جو سماجی ارتقا ئی ڈھانچہ چل رہا تھا اسکو مارکس نے’’ایشیائی طرزِپیداوار‘‘کا نام دیا تھا۔ یہاں چھوٹے چھوٹے دیہات تھے جہاں زمین اور دوسری پیداوار میں نجی ملکیت تھی ہی نہیں۔ ہر بنیادی سماجی یونٹ ایک کمیون کی طرز پر کام کرتا تھا اور انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مختلف شعبوں میں کام کی ایک تقسیم کار موجود تھی۔ جو جوتے بناتا تھا وہ موچی کہلانے لگا، جو برتن بناتے تھے وہ کمہار اور جو کھیتی باڑی کرتے تھے وہ کسان تھے۔ ان میں پیشوں کے حوالے سے نہ کوئی تعصب تھا اور نہ ہی کسی قسم کی ذات پات کی تقسیم۔ یہاں بہت سے بڑے حملہ آور آئے لیکن سبھی دہلی‘فتح پور سکری‘ لاہور اور دوسرے دارلحکومتوں تک ہی محدود رہے۔ نہ وہ یہاں کی زرخیز سرزمین میں موجود ان بنیادی سماجی یونٹوں میں مداخلت کرسکے اور نہ ہی اس بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی لیکر آئے۔
انگریزوں کے صنعتی انقلاب کے بعد جارحیت اور سامراجی قبضے سے ایک مسخ شدہ اور ناہموار طریقے کے ذریعے جب سرمایہ دارانہ رشتوں کو معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے نہ تو موجودہ سماجی ڈھانچہ یورپ کے صنعتی انقلاب والی سماجی یکجہتی اور جدیدیت حاصل کرسکا نہ ہی ماضی کے رشتوں کو بعینہ جاری رکھنا ممکن رہا۔ اس سے ناہموار اور متضاد بنیادوں پر استوار ایک بے ہنگم اور بگڑا ہوا معاشرہ تشکیل پایا جسکی پر انتشار شکل آج تک موجودہے۔ برطانوی سامراج نے 1793ء میں بنگال میں مستقل نوآبادکاری کی پالیسی کے تحت جاگیرداری کو جنم دیااور اسکو سامراجی قبضے کے لئے استعمال کیا۔ جو امرا اور زمینوں کے منصب دار مقامی عوام کی بغاوتوں اور تحریکوں سے غداری کرتے تھے انکو جاگیروں کے انعام دیئے جاتے تھے۔ آج کے جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے پاس یہ جاگیریں اپنے لوگوں سے غداری کی سند کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔
اسی طرح یہاں سرمایہ دارنہ طبقات بھی مصنوعی تھے جن کا یہ کردار آج تک نہیں بدلا۔ یہ یورپی سرمایہ داری کی طرح یہاں صحت مند سرمایہ داری استوار نہیں کرسکے۔ یہ ٹیکس چوری اور حکومتی خزانے کی لوٹ کے ذریعے صنعت کار ی کرتے ہیں اورمحنت کشوں کا وحشیانہ استحصال کرکے اپنے منافعے بناتے ہیں۔ اب کالے دھن پر مبنی ایک مزید نیا‘ نودولتی حکمران طبقہ انکو پیچھے چھوڑ گیا ہے جونہ تو صنعتیں لگاتے ہیں اور نہ ہی کسی پیداواری عمل میں شامل ہیں بلکہ ہیراپھیری اور جرائم کے ذریعے دولت اکٹھی کرتے ہیں۔ قوم پرستی کی بجائے یہ طبقہ مذہبی تعصبات کو استعمال کرکے محنت کش عوام کے ذہنوں کو مفلو ج کرتا ہے۔ اس لیے یہاں کے ’’خاندانی‘‘ اور ’’خونی‘‘ رئیسوں اور جد ی پشتی بڑے لوگوں کی اصلیت انتہائی بھیانک اور شرمناک ہے۔ لیکن ہر کوئی بس اپنے آپ کو خاندانی ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ سیاست اور معاشرے پر یہ رحجانات حاوی ہیں۔ ثقافت اتنی گر گئی ہے کہ انسان کو انسان سمجھنا ہی محال ہے۔ رنگ، نسل، قوم، ذات پات، برادری، مذہب اور فرقوں کی تقسیموں میں معاشرہ گھائل ہو رہا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد جو حکمران طبقہ مسند پر براجمان ہوا وہ انگریزوں کے بنائے ہوئے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی اشرافیہ پر مبنی تھا۔ یہ اپنی جہالت میں محنت کشوں کو کمی کمین کہہ کر ان سے حقارت کی نفسیات پھیلاتے تھے۔ لیکن پھر 1960ء کی دہائی کے اواخر میں انہی ’’کمی کمینوں‘‘ کو جب اپنی طاقت اور ذلت کا احساس ہوا تو پھر یہ جاگیردار اور سرمایہ دار چھپتے پھر رہے تھے۔ انہی لوڈروں اور دوسرے محنت کشوں نے ایک انقلاب برپا کردیا تھا۔ محنت کی طاقت کوعظمت ملنے کا وقت قریب محسوس ہو رہا تھا۔ طاقت کے ایوانوں کے سرخ فیتے والوں کو لائل پور میں مختار رانا جیسے مزدور لیڈروں کی کھولی کے باہر انتظار کرنا پڑتا تھا پھر مزدوروں کی رائے لینے کے بعد انکی ٹرانسپورٹ اور دوسرے کاروبار چلنے دینے کی اجازت مزدور لیڈر دیا کرتے تھے۔ یہ کھولی مزدور یونین کا کچی آبادی میں دفتر تھا۔ وہ وقت نہیں رہا۔ یہ بھی نہیں رہے گا! زیادہ وقت نہیں گزار جب فروری 2016ء کی ہڑتال میں پی آئی اے کے’’لوڈروں‘‘نے زمانے کو دکھایا تھا کہ اس طبقے کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ لوڈروں سے لیکر پائلٹوں تک جب اس ادارے کے تمام محنت کش‘ نجکاری کے خلاف جدوجہد میں متحد ہو کر میدان عمل میں نکلے تو تمام پروازیں بند ہوگئیں۔ جہاز گراؤنڈ ہوگئے اور فضائی سفر معطل کردئیے گئے۔
محنت کشوں کی تضحیک کرنے والے اِن نودولتی وزیروں اور حکمرانوں کی حقیقت پر کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ انکی گفتگو ‘باڈی لینگویج اورحرکات وسکنات سب کچھ عیاں کر رہی ہیں۔ آج انکی ایسی بے ہودگیوں پر عمران خان بہت شاباشیں دیتا ہے۔ انکو شاید انہی کرداروں اور افکاروں کی بنیاد پر وزارتوں کے منصب ملے ہیں۔ لیکن جس ثقافت کا یہ مظاہرہ کر رہے ہیں اورجس تہذیب کی یہ غمازی کرتے ہیں وہ اس نظام کے گلنے سڑنے کی بدبو سے سماج کو تعفن زدہ بنا رہی ہے۔ ٹیلی ویژن پر انکے چہروں کی مسلسل براجمانی اورانکی گفتگوثقافتی تنزلی کے اس عہد کو مزید ہولناک بنا رہی ہے۔ ہر ذی شعور انسان میں اس حاکمیت کے خلاف ایک نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ یہاں اس تضحیک، ذلت اور محرومی کے خلاف محنت کشوں کی بغاوت اتنی ہی دھماکہ خیز ہو گی۔