تحریر: لال خان
بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات سے پیشتر انتخابی عمل کے بڑے بڑے پنڈتوں کے لئے بھی کسی پیشین گوئی کی گنجائش نہیں بچی تھی۔ لیکن نتائج میں دو حقائق اہم ہیں۔ اول تو اتنی بڑی دھاندلی کی ضرورت نہیں تھی۔ کُل 299 نشستوں میں سے حکمران عوامی لیگ کے حق میں 288 سیٹوں کا نتیجہ مرتب کروانے سے بنگلہ دیش میں جمہوریت کا ڈھونگ خود اس کے معماروں نے بے نقاب کر دیا ہے۔ دوسری جانب اس سے وہاں کی ریاست کی بوکھلاہٹ، عدم اعتماد او ر داخلی تذبدب بھی کھل کے عیاں ہوگیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کو صرف 7 سیٹیں دینے پر ان کے حمایتی سامراجی میڈیا کے نمائندے بھی تنقید پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ لیکن شیخ حسینہ واجد کی اقتدار میں یہ ہیٹرک اس کے زوال اور بربادی کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔
عوامی لیگ کی بھارت نواز حکومت کے حوالے سے زیادہ پروپیگنڈا بنگلہ دیش کی بلند شرح ترقی، بیرونی سرمایہ کاری اور چین کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ گارمنٹس برآمد کرنے کا کیا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ انتخابی نتائج کو مرتب کرنے کے لئے جس طرح سے ریاستی جبر کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ترقی کتنی مصنوعی ہے اور کیسے متضاد سماجی حالات کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی انتہائی استحصالی اور وحشیانہ سرمایہ داری نے بظاہر ’’ترقی‘‘ کرتے ہوئے معاشرے کی اتھاہ گہرائیوں میں جو وسیع ذلت اور محرومی پیدا کی ہے اس نے کروڑوں عام انسانوں کے لئے ہولناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ایسے شدید سماجی تضادات کی موجودگی میں مروجہ نظام اور ریاست کا سماج پر طویل اور مستحکم کنٹرول ممکن نہیں ہوسکتا۔
ان انتخابات کے دوران 17 افراد (جن کی اکثریت کا تعلق حکومت مخالف گروہوں سے تھا) کو قتل کیا گیا اور ریاستی پشت پناہی میں عوامی لیگ نے بڑے پیمانے پر غنڈہ گردی کی۔ بنگلہ دیش کے بلند گروتھ ریٹ اور تیز معاشی ترقی، جس کی مثالیں یہاں کے بھی بہت سے لبرل حلقوں میں دی جاتیں ہیں، درحقیقت سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں اس طرز کی کلاسیکی مثال ہے جس میں معاشی اعشارئیے تو اوپر جاتے ہیں، حکمران طبقات خوب دولت کے انبار بھی لگاتے ہیں، لیکن معاشرے کی وسیع تر اکثریت کے حالات زندگی تنزلی کا شکار ہی رہتے ہیں۔ جنہیں ایک نسبتاً بڑے درمیانے طبقے کی بیہودہ زرق برق کے نیچے بڑی عیاری سے چھپا دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے برازیل سے لے کے جنوبی افریقہ، چین (1978ء کے بعد)، ہندوستان اور کسی حد تک پاکستان کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔
1980ء کی دہائی میں ریاستی سرمایہ داری کی ناکامی واضح ہو جانے کے بعد عالمی سطح پر ’ریگنامکس‘ اور ’تھیچر ازم‘ کے نیولبرل اکنامک ڈاکٹرائن کے تحت ’’ترقی‘‘ کی یہ شکل تیزی سے ابھری تھی۔ سرمایہ داری کے اس قدیم انداز (جسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی گئی) میں تعلیم اور علاج سے لے کے مالیات اور صنعت تک میں ریاستی مداخلت کو ختم کرکے‘ ساری معیشت کو نجی ملکیت میں دے کے گرتی ہوئی شرح منافع میں اضافہ کروایا جاتا ہے۔ اس میں اہم عنصر ’ٹریکل ڈاؤن اکنامکس‘ کا بھی ہے جس کا مطلب بڑے سرمایہ داروں اور کارپوریشنوں کے دیوہیکل منافعوں کے کچھ قطروں کو سماج کی نچلی پرتوں میں سرایت کروانا اور انہیں دولت کے اجتماع اور مقابلہ بازی میں محو کرکے انفرادیت اور خود غرضی کی نفسیات کو پورے معاشرے پہ حاوی کروانا ہے۔ ان عیارانہ پالیسیوں سے وسیع تر محنت کش طبقات تو مزید غربت اور محرومی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ہیں جبکہ ایک نسبتاً بڑا درمیانہ طبقہ ابھر ا ہے جس کی اپنی رجعتی سیاست، ثقافت اور اقدار ہیں۔ دوسری طرف چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز اور طبقاتی تضاد آج دنیا بھر میں اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں بھی اسی انداز کی ترقی ہوئی ہے۔ اگرچہ ایک مخصوص وقت کے بعد اس ماڈل کی ناگزیر گراوٹ واضح ہو رہی ہے جس سے سرمایہ داری کا بحران زیادہ گھمبیر ہوگیا ہے۔ بنگلہ دیش میں محنت کشوں‘ بالخصوص خواتین اور بچوں کی حالت زار اتنی بدتر ہے کہ انسان لرز جاتا ہے ۔ برطانوی بائیں بازو کے معیشت دان مِک بروکس نے کچھ عرصہ قبل بنگلہ دیش کے گارمنٹ ورکرز (جنکی بھاری اکثریت نوجوان خواتین پر مبنی ہے) پر ایک تحقیق شائع کی ہے جس میں ایک نوجوان لڑکی نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں تو بعض اوقات طوائفوں پہ رشک آتاہے کیونکہ جسم فروشی کی صنعت میں کام کرنے والی لڑکیوں کے حالات ہم گارمنٹ ورکرز سے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔‘‘ اس ایک بیان سے ہی ساری ترقی کی مکروہ اصلیت عیاں ہوجاتی ہے۔
بنگلہ دیش کا جنم ایک طوفانی دور کے انت پہ ہوا تھا۔ برصغیر جنوب ایشیا میں1967-69ء کے دوران ہونے والے انقلابی اور پھر ردِانقلابی واقعات کے بعد یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا۔ 1968ء میں اس وقت کے مشرقی اور مغربی پاکستان میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی جو بغاوت ابھری تھی اسے انقلابی قیادت کی نااہلی یا فقدان کیفیت میں خطے کے حکمران طبقات نے 1971ء کی خانہ جنگی اور جنگ میں زائل کر دیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان بنیاد طور پہ مشرقی بنگال کے حکمران طبقات کا نمائندہ تھا۔ مجیب اور عوامی لیگ خود کو بڑا ’ترقی پسند‘ گردانتے تھے لیکن لاکھوں جانوں کے زیاں کے بعد جو آزادی حاصل ہوئی اس میں نظام نہیں بدل پایا اور کروڑوں عام انسانوں کو مہنگائی‘ استحصال اور ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو پایا۔ ان بنگالی حکمران طبقات کا رجعتی اور طفیلی کردار اس جرم سے بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش، جسے ساری بنگالی قوم کا ملک ہونا تھا، کی صرف سابقہ مشرقی پاکستان کی سرحدوں تک محدودیت کو تسلیم کر لیا۔ بھارتی حکمرانوں کے ان گماشتوں نے مغربی بنگال ( جس کے باسی اتنے ہی بنگالی تھے جتنے کے مشرقی بنگال کے ) کو بنگلہ دیش کا حصہ بنانے کا مطالبہ تک پیش نہیں کیا۔ اس سے ان کی قوم پرستی کی حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے۔ اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ مغربی اور مشرقی بنگال کے عوام کے یکجا ہونے سے نہ صرف 1947ء کے سامراجی خونی بٹوارے کا خاتمہ ہوتا بلکہ محکوموں کی یہ جڑت پورے برصغیر کی سرمایہ دارانہ حاکمیتوں کے لئے خطرہ بن سکتی تھی۔
لیکن ’’آزادی‘‘ کے حصول اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد خطے کے دوسرے ممالک کی طرح یہ حکمران طبقات بھی قومی جمہوری انقلاب اور جدید قومی ریاست کی تشکیل کا کوئی بنیادی فریضہ مکمل نہیں کر سکے۔ لولی لنگڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت‘ فوجی آمریتوں کے ہاتھوں برباد ہوتی رہی۔ پھر جب ان آمریتوں کے مظالم سماجی بغاوتوں کو جنم دینے لگے تو پھر اسی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی دونوں پارٹیوں ( عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی) کو ایک جعلی جمہوری اقتدار دے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی سماجی تبدیلی کی تحریکوں کو زائل کیا جاتا رہا ہے۔ پھر جیسا کہ پاکستان سمیت دوسرے کئی پسماندہ ممالک میں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اسی نام نہاد جمہوریت میں اس قدر ریاستی جبرمسلط کیا گیا کہ بعض اوقات حالات براہِ راست فوجی آمریتوں سے بھی زیادہ ہولناک نظر آتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی موروثی سیاست اور شخصیت پرستی کو استعمال کرکے جمہوریت کا ناٹک رچایا گیا ہے۔ ایک طرف خالدہ ضیا ہے جو ایک نام نہاد ترقی پسند ڈکٹیٹر کی بیوہ ہے جبکہ دوسری طرف شیخ حسینہ واجد ہے جو بنگلہ دیش کے بانی مجیب الرحمان کی بیٹی ہے۔ یہ حقیقت بھی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان 1975ء میں بائیں بازو کی فوجی بغاوت میں مارا گیا تھا۔ لیکن اِس بغاوت کی اپنی کمزوریاں اور المیے تھے۔
پچھلے کچھ عرصے سے ملکی معیشت اور کاروباروں میں بنگلہ دیش کی فوج کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے ریاست کے مفادات منڈی سے کہیں زیادہ منسلک ہوگئے ہیں۔ اس عمل میں حسینہ واجد نے فوجی ا شرافیہ کی بھرپور معاونت کی ہے اور اسکے عوض ان کی جابرانہ حمایت بھی حاصل کی ہے۔ دوسری طرف خالدہ ضیا‘ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی پارٹیوں کی اتحادی ہے اور بنگلہ دیش کے حکمران طبقے ہی کے ایک دوسرے دھڑے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایسے میں عوام کے لئے مروجہ سیاست کے افق میں کوئی بڑی پارٹی نہیں ہے۔ لیکن کمیونسٹ پارٹیوں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس بائیں بازو کو خاصے کٹھن حالات اور ریاستی جبر میں کام کرنا پڑتا تھا۔ لیکن ماضی میں مولانا بھاشانی سے لے کے فوج میں بائیں بازو کی بغاوتوں اور محنت کشوں کی تحریکوں میں عظیم انقلابی روایات اور اسباق پنہاں ہیں۔ جن سے بنگلہ دیش کے انقلابیوں کو بہت کچھ سیکھنا ہے۔ پچھلے عرصے میں طلبہ کے ملک گیر مظاہروں نے ثابت کیا ہے کہ جب تحریک ابھرے گی تو جبر و استحصال کے سارے نظام کو ہی برباد کر دے گی۔