اقتدار کی ہوس

تحریر: لال خان

ویسے تو ہر نئی حکومت اپنی ناکامیوں کے الزامات پچھلی حکومتوں پر عائد کرتی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت تو اس الزام تراشی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ اس حکومت کے ایک وزیر سے جب سوال کیا گیاکہ اتنی شدت سے مہنگائی میں اضافہ کیوں کر رہے ہیں تو موصوف کا جواب تھا کہ ’’ہم نواز شریف کو نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ جب الزام تراشی ایک وحشت میں بدل جائے تو ایسے میں بالعموم دوسری جانب سے بھی الزام تراشی کے سوا کوئی جواب نہیں ملتا۔ یہاں کے حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں میں یہ بڑھتا ہوا تناؤ اور بدتہذیبی بنیادی طور پر اس سارے طبقے کی اپنی ٹوٹ پھوٹ اور بحران کی غمازی کر رہی ہے۔ ایک طرف سرمایہ داروں، بڑے زمینداروں اور درمیانے کاروباری طبقے کی پارٹی مسلم لیگ تھی جس کی مہارت ہی یہی تھی کہ نظام کے بحران کو ٹالنا کیسے ہے اور آئی ایم ایف کیساتھ ہاتھ کیسے کرنا ہے۔ دوسری طرف نودولتیوں اور شہری مڈل کلاس پر مبنی یہ پی ٹی آئی ہے جس کے ثقافتی معیار اور سماجی بنیادوں کو جاننے کے لئے اس کے نمائندوں کے نام ہی کافی ہیں۔ یہ نئے پاکستان کے علمبردار اس مخصوص کردار اور ذہنیت کے حامل ہیں جو تھوڑے میں زیادہ پڑ جانے سے آنے والی امارت اور نودولتیوں کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ نیا نیا سیاسی اور معاشی مقام حاصل کرنے والے ایسے حکمران ایک جانب نیکی، پارسائی اور روحانیت کا ڈھونگ کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ان کے اندر رچی بسی ہوئی ولگیریٹی اور بدتہذیبی کا ایک ایسا ملغوبہ بن جاتا ہے جو متضاد شخصیات اور کردار استوار کر دیتا ہے۔ لیکن مروجہ سیاست کی تمام پارٹیوں کی تنزلی جہاں ان کے نظام کے زوال کی غمازی کرتی ہے وہاں ان کی سیاسی اقدار اور اخلاقیات کی گراوٹ کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔
اس خطے میں بسنے والی قومیتوں کی قدیم ثقافتی روایات میں ایک اہم عنصر جگت بازی اور طنز و مزاع کا بھی رہا ہے۔ لیکن آج کے عمومی تاثر کے برعکس جگت کا مطلب بیہودگی ہرگز نہیں ہوتا بلکہ حاضر جوابی کیساتھ کیا گیا ایسا مزاح بڑا لطیف بھی ہو سکتا ہے۔ آج بھی ایسی جگتیں سننے کو ملتی ہیں جن میں گہری طنز کا عنصر پایا جاتا ہے۔ لیکن یہاں جاگیرداری کی باقیات ابھی تک ثقافت اور رویوں پہ حاوی ہیں۔ ایسے میں نودولتیے بھی ’خاندانی‘ اور ’جدی پشتی زمیندار‘ ہونے کا تاثر اپنے لباس اور انداز سے دینے کی کوشش کرتے ہیں جو بڑا بھونڈا اور مصنوعی ہوتا ہے۔ اس بناوٹ اور منافقت کو عام انسان آسانی سے پہچان سکتا ہے۔ اب یہاں پر جگتوں اور لطیفوں وغیرہ کی تخلیق کرنے والے فنکاروں کو بڑی ہی تضحیک کیساتھ بھانڈ یا میراثی کہہ کر انکی غربت اور محرومی کا دلسوز مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لیکن آج کی حقیقت یہ بھی ہے زیادہ تر سرکردہ سیاست دان اور پارٹیوں میں ترقی کرکے بڑے لیڈر بن جانے والے یہ حکمران انہی بھانڈوں اور مراثیوں کا بہت ہی گھٹیا چربہ معلوم ہوتے ہیں۔ اب پارٹیوں کی نمائندگی کا معیار صرف یہ بن گیا ہے کہ ٹیلی ویژن پروگراموں اور جلسے جلوسوں میں کون زیادہ گھٹیا جگت بازی کرتا ہے اور کون مدمقابل سیاستدانوں کی تضحیک کر سکتا ہے۔ ایسے تنزلی کے ادوار میں عام لوگ بھی جب صحتمند تفریح، مزاح اور رونق سے محروم ہوجاتے ہیں تو پھر ان ٹاک شوز کو دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیونکہ ڈرامہ، تھیٹر اور فلم کے معیار بھی اتنے ہی گر چکے ہیں۔ایسے میں عوام کو اپنے روز مرہ کے اذیت ناک مسائل اور ذلتوں سے توجہ ہٹانے کے لئے ان سیاستدانوں کی گھٹیا اور بے ہودہ جگت بازی والے ناٹکوں کی لت سی لگ جاتی ہے۔ لیکن یہ پروگرام بھی دل کو چین اور روح کی تازگی نہیں بخشتے بلکہ مزید پراگندگی اور خجالت سے ہی دوچار کر دیتے ہیں۔
یہ سارا کھلواڑ اتنا بے سبب بھی نہیں ہے۔ اِن میزبان خواتین و حضرات، پروگراموں میں شریک نام نہاد ماہرین اور سیاستدانوں کی یہ لایعنی اور گری ہوئی گفتگو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اس نظام کے رکھوالوں کے پاس معاشرے کو درپیش سنگین مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ نہ ہی عوام کے حق میں اصلاحات کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ یہ بس لوگوں کو ا س طلسم میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں کہ اپنے سلگتے ہوئے مسائل اور محرومیوں سے بھری زندگیوں کو وقتی طور پر فراموش کر دیں اور بس ان کی آنیاں جانیاں دیکھتے رہیں۔
ویسے پی ٹی آئی کے نئے معاشی ماہرین کی فوج ظفر موج میں چند ایک ایسے معیشت دان تو یقیناًہونگے جو کم از کم اتنا ادراک اور عقل رکھتے ہوں کہ یہاں کی تباہ حال سرمایہ داری کی حقیقی کیفیت کو جان سکیں۔ اس استحصالی معیشت کی بیماری کی سنگینی کس نہج کو پہنچ چکی ہے اگر اس کا تھوڑا سا بھی اندازہ ہو جائے تو یہ پتا کرنا مشکل نہیں کہ اقتدار میں آ کر کتنی مہنگائی اور بربادی کرنی پڑے گی۔ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائینگے تو کہاں جائیں گے؟ کوئی اور قرضہ دے گا بھی تو اس کی شرائط بھلا آئی ایم ایف سے کیونکر کم تلخ ہوں گی؟ اور عالمی منڈی میں جاری شدید مندی میں بھلا برآمدات کیسے بڑھ سکتی ہیں؟ ایک طرف سی پیک کی دیوہیکل درآمدات ہیں۔ پھر جنگی اسلحے اور انسانی تباہی کے آلات کی وسیع خریداری ہے۔ اس بارے سوچنے سے عمران خان کی حکومت تو رہی۔ باقی امیروں کے لیے جو چیزیں آتی ہیں ان میں بہت ہی پرتعیش مصنوعات پر کچھ ٹیکس بڑھ بھی جائیں تو انہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن منی بجٹ کے بعد 17 اکتوبر کی رات کو جو ایک اور شب خونی بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں جن 570 اشیا کی قیمتوں میں ہولناک اضافہ کیا گیا ہے ان میں سے بیشتر عام لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔ کیا محنت کشوں کے بچوں کو دہی اور آڑو کھانے کا بھی حق نہیں؟ لیکن کون پوچھنے والا ہے۔ بس نواز شریف کو ذمہ دار ٹھہراؤ اور نیب سے ہر اس فرد کو پابند سلاسل کروا دو جو اس لڑائی میں آپ اور آپ کے آقاؤں پر تنقید کرتا ہو۔ لیکن یہ لڑائیاں بھی ایک بہت بڑا فریب ہیں۔ حکمران طبقے کی ان آپسی لڑائیوں کا مقصد محنت کشوں کو ایک یا دوسرے دھڑے کا حمایتی بنانا ہے۔ کوئی مظلوم بن کر حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے تو کسی کو نجات دہندہ اور ہیرو بنا کر مقبول کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کی اکثریت گزشتہ لمبے عرصے سے اس کھلواڑ کا حصہ نہیں بنی ہے جس سے پتا چلتا ہے وہ یہاں کے نام نہاد ’’پڑھے لکھے‘‘ طبقات سے کہیں زیادہ سمجھدارہیں۔ لیکن ان کے اندر ایک لاوا بھی پک رہا ہے۔ اس نظام کی حاکمیت کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔
دوسری جانب خود مختاری اور سا لمیت کی باتیں بھی محض فریب ہیں۔ آئی ایم ایف سے زیادہ سفاک ایک اور ادارہ بھی ہے۔ جس سے اس نظام میں کوئی بچ نہیں سکتا۔ یہ عالمی منڈی ہے۔جو یہ تک طے کرتی ہے کہ سندھ کے دور دراز علاقوں میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس یا بلوچستان کے ویرانوں سے نکلنے والی معدنیات کی قیمت کیا ہوگی۔ جب تک اِس منڈی کے نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں ہوتا سا لمیت ایک ڈھونگ اور فریب ہی رہے گی۔ لیکن جب تک یہاں سرمایہ دارانہ معیشت رہے گی یہ اسی عالمی منڈی کی جکڑ میں رہے گی جس کے اصول اور قوانین پھر سامراجی قوتیں ہی طے کرتی ہیں۔ یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی اقتدار میں صرف وہی آتے ہیں جنہیں عوام کے دُکھوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس اقتدار میں آنے کے لئے سفاک اور پتھر دل ہونا لازم ہے۔ یہ حکمران طبقات بے حس نہ ہوں تو حکمرانی کیسے کر سکتے ہیں؟ رحم دلی ان کے نظام کے لئے زہر قاتل ہوتی ہے۔ ظلم کا نظام ظلم کے بغیر چل نہیں سکتا اور مظلوموں کی بغاوت کے بغیر مٹ نہیں سکتا۔