نیشنلائزیشن کے دشمن

تحریر: لال خان

پاکستان تحریک انصاف حکومت کے پہلے سو دن مکمل ہونے پر عمران خان نے جو جلسہ کیا اس میں کرپشن کی پرانی گردان ہی زیادہ تر دہرائی گئی۔ کسی وعدے یا حکومتی کاروائی میں پیش رفت پر بات کرنے سے بالعموم گریز ہی کیا۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی پہلے کیا ہے وہ عوام کی بدحالی میں اضافے کا ہی باعث بنا ہے۔ لیکن مستقبل کے بارے میں اس تقریر میں جو مبینہ ’وِژن‘ پیش کیا گیا ہے وہ اِکیسویں صدی کی بجائے سینکڑوں سال پرانی دیہی معیشت کے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے۔ خواتین کو ’دیسی مرغیاں‘ فراہم کرکے انکے انڈوں کے کاروبار سے لے کر بھینسوں کے ’کٹوں‘ (بچھڑوں) کی نگہداشت پر ’سبسڈی‘ دے کر غریبوں کو مالا مال کرنے کا پروگرام تو وہاں بیٹھی اَپ سٹارٹ رعایاکیلئے بھی یقیناًمضحکہ خیز تھا۔ لیکن اس تقریر میں عمران خان نے اپنے اقتصادی نظریات اور طبقاتی وفاداری کو شاید پہلی مرتبہ بے دھڑک بیان کیا ہے۔ موصوف نے 1970ء کی دہائی میں بھٹو حکومت کی نیشنلائزیشن کو پاکستان کی تاریخ کا ’’بدترین معاشی جرم‘‘ قرار دیا۔ جس سے محنت کشوں کے بارے میں عمران خان کے مذموم ارادوں اور تضحیک آمیز ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ویسے تو پاکستان کی موجودہ سیاست پر مسلط تمام پارٹیاں اسی جارحانہ نیولبرل سرمایہ داری (پرائیویٹائزیشن، ڈاؤن سائزنگ، فارن ڈائریکٹ سرمایہ کاری وغیرہ) کی پیروکار ہیں لیکن اس سے پہلے کی تمام وارداتوں کے باوجود اتنا کھل کر نیشنلائزیشن کو شاید کسی نے گالی نہیں دی۔ لیکن پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اِس نام نہاد جمہوری سیٹ اَپ میں بھٹو کی اس نیشنلائزیشن کے خلاف سب سے پہلے ان کی اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو زرداری نے مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس سے قبل ضیا الحق کی سفاک آمریت نے بھٹو دور کے قومیائے گئے کارخانوں کو بھاری پیکجوں کیساتھ مالکان کو واپس کیا تھا۔ ان مالکان میں شریف خاندان بھی شامل تھا۔ لیکن بینظیر برطانیہ میں اپنی جلاوطنی کے دوران مارگریٹ تھیچر (جسے برطانوی عوام آج بھی بچوں کا دودھ چھیننے والی ڈائن کہتے ہیں) سے بہت متاثر ہو کر آئی تھی اور اس کے زیادہ قریبی صلاح کاروں میں ڈیوڈ اوون جیسے دائیں بازو کے سوشل ڈیموکریٹ شامل تھے۔ بینظیر نے اپنی سوانح حیات ’مشرق کی بیٹی‘ میں نہ صرف تھیچر کو اپنی ہیروئین قرار دیا بلکہ برصغیر میں نجکاری کا آغاز کرنے والی پہلی وزیر اعظم ہونے پر فخر کا اظہار بھی کیا۔ پھر نواز شریف تو خود بھٹو کے ’عتاب زدہ‘ خاندان سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ اس نے اپنی پہلی تقریر میں ہی واضح کردیا تھا کہ کارخانے اور فیکٹریاں چلانا صنعت کاروں کا کام ہے اور ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ معیشت میں ریاست کی مداخلت ختم ہونی چاہئے وغیرہ۔ بے نظیر کے قتل کے بعد2008ء میں آنے والے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی نیشنلائزیشن کو بھٹو کی غلطی قرار دیا تھا۔ اب عمران خان بھی کھل کے سامنے آیا ہے۔
اس سیاست میں حصہ داریوں پر کیسی کیسی نوراکشتیاں ہیں۔ نظام کو چلانے کے طریقوں پر کیسے کیسے اختلاف ہیں۔ لیکن بنیادی پالیسیوں پر ان سب کا کیسا اتفاق ہے! محنت کش طبقے کے حقیقی مسائل کا ادراک اور ان کے حل کی انقلابی سوچ رکھنے والے افراد تو فوجی آمروں سے لے کر اِن ’سویلین‘ حکمرانوں کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتے۔ بس نودولتیوں، سرمایہ داروں، پراپرٹی ٹائیکونوں، کالے دھن کے ان داتاؤں، نوسربازوں اور اپنے طبقے سے غداری کر کے ’اوپر‘ آنے والے خوش آمدیوں کی ایک فوج ظفر موج ہوتی ہے۔ انہی کے محلات میں یہ لوگ قیام پذیر ہوتے ہیں اور پرتعیش ضیافتوں میں انہی کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہر قسم کے کالے دھن والے ان کی پارٹیوں، انتخابی مہمات اور نجی عیاشیوں کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ اربوں کی جائیدادیں، قلعہ نما محل اور ہوائی جہاز تحفوں دیتے ہیں۔ اور پھر جب یہ سیاسی قائدین اقتدار میں آتے ہیں تو بھاری سرمایہ کاری کرنے والوں کو بھلا لوٹ مار سے کون روک سکتا ہے۔ سب سے بڑا کاروبار تو یہ جمہوریت ہے جس کی نجکاری عرصہ قبل ہو چکی ہے۔
عمران خان جس کرپشن کے پیسے کی بات کرتا پھرتا ہے وہ بیرون ملک سے زیادہ اندرونِ ملک موجود ہے۔ باہر تو پھر کچھ خطرات ہوسکتے ہیں لیکن یہاں تو ان کی اپنی بادشاہت ہوتی ہے۔ یہ کرپشن سیاست سے لے کر ریاست کے اندر تک ایک ناسور کی طرح سرایت کر چکی ہے۔ بیشتر چیف جسٹس ریٹائرمنٹ کے بعد عدلیہ کی مختلف پرتوں میں بے پناہ کرپشن کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ نیچے سے اوپر تک سرکاری مشینری اس کرپشن پر نسل در نسل ایک روایتی انحصار بنا چکی ہے۔ سفید سے زیادہ کالا دھن ہے جو اِس منڈی اور معیشت کو چلا رہا ہے اور تیل کی طرح اِس نظام کی زنگ آلود مشینری کو لبریکیٹ کرتا ہے۔ کرپشن ختم کرنے کے لئے یہ پورا نظام ختم کرنا پڑے گا۔ عمران خان جیسے لوگ، جو خود اِس نظام کی پیداوار ہیں، اس کی بنیادوں کو چھو بھی نہیں سکتے۔
محنت کشوں کی حالت زار کے بارے میں ان اونچے ایوانوں اور رنگین محلات میں بھلا کیا بات ہوسکتی ہے۔ اگر کبھی ہوتی بھی ہے تو محض اپنی سودے بازی کے لئے! ان قلعوں کی دیواریں اتنی اونچی ہوتی ہیں کہ خلق کی پکار اندر نہیں پہنچ سکتی۔
جہاں تک بھٹو کی نیشنلائزیشن کی بات ہے تو اُس نے یہ سب کچھ اپنے شوق سے نہیں کیا تھا۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکنے کے باوجود اتنی زور دار ضرور تھی کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کو پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ ریڈیکل اصلاحات کرنی پڑی تھیں۔ محنت کش طبقے کے لئے پنشن، سوشل سکیورٹی، بہتر اجرت، ہاؤسنگ اور مفت تعلیم جیسی سہولیات کا اجرا ہوا تھا۔ ’پائیلر‘نامی غیر سرکاری ادارے سے وابستہ کرامت علی صاحب نے حال ہی میں اس لیبر پالیسی کو دوبارہ شائع کروایا ہے۔ آج کی پیپلز پارٹی میں اگر کوئی تھوڑا شعور اور ضمیر رکھنے والا بندہ بچا ہے تو اُسے کم از کم یہ دستاویز پڑھ لینی چاہیے۔ پارٹی کے بنیادی منشور کی بات تو ویسے ہی شجر ممنوعہ بنا دی گئی ہے۔ بھٹو حکومت کے پہلے سو دنوں میں ہر روز کسی ایسے بڑے اقدام کا اجرا ہوتا تھا کہ پورے معاشرے میں نئے حوصلے اور عزم کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ اُن سو دنوں کا عمران خان کے سو دِنوں سے موازنہ کیا جائے تو اندھیرے اور اجالے جتنا فرق نظر آتا ہے۔
نیشنلائزیشن دشمنی پر مبنی عمران خان کے اس بیان کو پی آئی اے، اسٹیل مل، واپڈا، ریلوے اور دوسرے سرکاری اداروں کے محنت کشوں کو بھی ایک وارننگ کے طور پر لینا چاہیے۔ کیونکہ اُس نیشنلائزیشن کی حاصلات، جو وقت کیساتھ مسلسل سکڑنے کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں آج تک موجود ہیں، ان کے پرکھوں نے کٹھن جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ بھٹو نے ادھوری نیشنلائزیشن کی تھی۔ سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کی بجائے یہ اس کے اندر اصلاحات کی ایک سعی لاحاصل تھی۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام کو نہ توڑا جائے تو یہ دیمک کی طرح قومیائے گئے اداروں کو چاٹ جاتا ہے۔ یہ نیشنلائزیشن محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں ہونے کی بجائے ایک طرح کی بیوروکریٹائزیشن بن کے رہ گئی۔ مقابلے کے امتحان پاس کرنے والے بابو حضرات کے ذریعے سوشلزم تعمیر نہیں ہو سکتا۔ وہ تو پوری نوکری اسی سرمایہ داری کے تحفظ میں گزارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قومی ادارے ناگزیر طور پر کرپشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
لیکن ان تمام کمزوریوں اور قباحتوں کے باوجود یہ نیشنلائزیشن ملکی تاریخ میں محنت کشوں اور وسیع تر عوام کیلئے سب سے بڑا اقدام تھی۔ آج کا فریضہ اس تجربے سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ بھٹو نے اپنی آخری تحریر ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ میں جو اعتراف کیا تھا وہ 1789ء کے انقلابِ فرانس کے سرخیل رہنما (لوئی انتوانت دیساں جست) کے اس قول سے مختلف نہیں تھا کہ ادھورا انقلاب کرنے والے اپنی قبر خود کھودتے ہیں۔ آج اس معاشرے کو آگے بڑھانے اور اس نظام کی ذلت اور بربادیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے اُس ادھورے انقلاب کو مکمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔