مودی کے زوال کا آغاز؟
مودی جس ’چمکتے ہندوستان‘ (شائننگ انڈیا) کے نعرے کے ساتھ 2014ء میں اقتدار پر براجمان ہوا تھا وہ انڈیا صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہی چمک رکھتا ہے۔
مودی جس ’چمکتے ہندوستان‘ (شائننگ انڈیا) کے نعرے کے ساتھ 2014ء میں اقتدار پر براجمان ہوا تھا وہ انڈیا صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہی چمک رکھتا ہے۔
ہنستے بستے سماجوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد یہ سامراجی خود دم دبا کے بھاگ رہے ہیں۔
مظفرآباد طبقاتی جدوجہد کے دفتر میں مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا جس میں عالمی تناظر کا موضوع زیر بحث آیا۔
یہ زرد حاکمیت زہریلی بھی ہے اور بیمار بھی۔
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
اِس تحریک نے نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سطح پر مزاحمت اور جدوجہد کے نئے باب کا آغاز کیا ہے جو آنے والے دنوں میں سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کیساتھ جاری رہے گا۔
’’چینی خاصیتوں والا سوشلزم‘‘، جو چین کا سرکاری نظریہ ہے، بنیادی طور پر ریاستی سرمایہ داری کی ایک شکل ہے۔
محنت کشوں نے اپنی طاقت منوائی ہے اور سیکھا ہے کہ طبقاتی جڑت اور جدوجہد سے حقوق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں جمہوریت کا ڈھونگ خود اس کے معماروں نے بے نقاب کر دیا ہے۔
کچھ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ 72 سال بعد اب پہلی مرتبہ پاکستان سے ’کرپشن کا خاتمہ‘ ہونے کو ہے۔
ہڑتالیں ’جنگ کے سکول‘ ہیں اورخود جنگ نہیں ہیں۔
اس وقت یمن ایک بڑے قحط کے دہانے پر کھڑا ہے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آکر اگر کسی طبقے کا نام لینے تک سے بھی اجتناب کیا ہے تو وہ ’’مزدور طبقہ‘‘ ہے۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد ریڈیکل نظریات کی طرف راغب ہو رہی ہے جنہیں انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر جیتا جا سکتا ہے۔
جس طرح تحریک انصاف کی حاکمیت بے نقاب ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ریاست کے حقیقی حکمران خود کتنی گراوٹ اور بحران کا شکار ہیں۔