’نئے پاکستان‘ کے 100 دن

تحریر: ظفراﷲ

حکومت کے سو دن پورے ہونے پر عمران خان نے اپنی تقریر نے جس طرح مرغیوں، انڈوں اور بچھڑوں کو معیشت کی بحالی کے نسخے کے طور پر پیش کیا ہے اس سے نظام کے بحران اور موجودہ حکومت کی اہلیت و مبینہ ’’وژن‘‘ کے بارے میں کسی شک و شبے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ اگلے ہی دن انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 142 روپے تک جا پہنچا جس کے بارے میں موصوف کا کہنا تھا کہ انہیں تو ٹیلیوژن کے ذریعے یہ خبر ملی ہے۔ درحقیقت پس پردہ آئی ایم کی شرائط پر پوری اطاعت سے عمل درآمد جاری ہے جس سے نودولتیوں کی اس حکومت کا گماشتہ کردار بالکل بے نقاب ہو جاتا ہے۔ پچھلے تین مہینوں میں ملکی قرضوں میں 984ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی بھی اسی عرصے میں دوگنا ہو چکی ہے۔ افراطِ زر کے باوجود معاشی سکڑاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ روپے کی قدر گھٹائی اور شرح سود بڑھائی جا رہی ہے جس سے قرضے اور بھی بھاری اور ناقابل برداشت ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ ڈالر قدر میں صرف ایک روپے اضافے سے ملکی قرضے میں 97 ارب روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
کسی مظہر کا درست تجزیہ کرنے کے لئے اسے اسکی مخصوصیات کیساتھ ٹھوس انداز سے دیکھنا پڑتا ہے۔ محض عمومی یا تجریدی انداز میں تجزیہ کرنے یا اجزا کو کُل میں جوڑے بغیر کاٹ کاٹ کے دیکھنا اکثر اوقات غلط نتائج کا باعث بنتا ہے۔ جدلیات کا بنیادی اصول ہے کہ کُل کے تسلسل میں ہی ’جزو‘ کے بارے میں سمجھ بوجھ حاصل کی جا سکتی ہے۔ جدلیات کی باضابطہ سمجھ بوجھ نہ رکھنے والے بہت سے لوگ بھی غیر ارادی طور پر کسی نہ کسی سطح پر جدلیاتی طریقہ کا ر کے ذریعے تجزئیے کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ مارکسزم کا علم اور طریقہ دراصل اس لاشعوری عمل کو ایک شعوری جہت دے کر بلند تر درجے پہ لے جاتا ہے۔
افراد اور ان کی سماجی و سیاسی تنظیم پر اثر انداز ہونے والے عوامل کی پرکھ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جس کو مسلسل کئی زاویو ں سے پرکھنا ضروری ہوتا ہے۔ صرف چوتھائی صدی قبل کی مروجہ دانش اگر آج کے سیاسی اور سماجی حالات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرے تو ایک بند گلی میں محصور ہوجائیگی۔ کیسی کیسی دانش ہے جو آج حاوی ہے اور کتنی مضحکہ خیز سیاست ہے جو عالمی سطح پر اپنا اظہار کر رہی ہے۔ ہر عہد کا اپنا عمومی کردار ہوتاہے جو سیاست،ثقافت ،آرٹ حتیٰ کہ روز مرہ کے انسانی رویوں میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ لیکن ان کیفیات کی بنیاد وہ مروجہ نظام ہوتاہے جس پر ان کا عمومی کردار تشکیل پا رہا ہوتا ہے۔
ماضی کے درخشاں عہد، سرخیل افراد، ثقافت، صحافت، اداکاروں اور فن پاروں کو مبالغہ آرائی کی حد تک موضوعی اور انفرادی خصوصیات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور انتہائی غلط بنیادوں پر اِس سوچ کو معاشرے کی وسیع پرتوں کے شعور پر مسلط کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اگرچہ افراد کا تاریخ میں بعض اوقات ایک بڑا کردار اور حیثیت ہوتی ہے لیکن پھر افراد اُس عہد کی مخصوص کیفیات میں ہی سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ کسی نظام کے معاشی، سیاسی اور سماجی زوال اور انحطاط کے عہد میں اس کے نمائندہ عظیم وزرا، سیاستدان، فنکار، دانشور اور سیاسی کارکنان پنپ سکیں یا سامنے آ سکیں۔ کسی نظام کو اپنے عروج کے عہد میں ہی یہ خزانے میسر آ سکتے ہیں۔
عالمی سیاست پر نظر ڈالیں تو آج اس کا سُرخیل ڈونلڈ ٹرمپ ہے جو ایک مضحکہ خیز المیہ ہے۔ ہندوستان میں مودی ہے، فلپائن میں ڈیوٹرٹے اور برازیل میں بولسونارو جیسا وحشی انسان برسراقتدار آچکا ہے۔ پاکستان میں دائیں بازو کے پاپولزم، مضحکہ خیز بڑھک بازی اور پست دانش میں ان لوگوں سے کئی مماثلتیں رکھنے والا عمران خان ہے جو سماج کی ایک مخصوص درمیانی پرت، جو مقداری طور پر خاصی وسیع ہے، میں انتہائی مقبول ہے۔ یہ پارٹیاں اور افراد اس نظام کے رکھوالوں کی شعوری پستی کا اظہار ہیں اور موجودہ عہد کے کردار کی غمازی بھی کرتے ہیں۔ مارکس نے واضح کیا تھا کہ ہر عہد اپنی مطابقت سے افراد اور شخصیات بھی تخلیق کرتا ہے۔ آج کا عہد سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کی مسلسل زوال پذیری کا غماز ہے اور اس پر کھڑا ہر ڈھانچہ بحران کا شکار ہے۔ اس کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی مزاحمت بھی ہے جو مختلف اوقات میں مختلف درجے کی شدت سے جاری ہے۔ کبھی بھڑکتی ہے، تھمتی ہے اور پھر ابھرتی ہے اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک اس بغاوت کو ایک انقلابی راستہ اور کامیابی سے ہمکنار کرنے والی قیادت نہیں ملتی۔
امریکہ سے لے کر چین اور یورپ تک مسلسل عدم استحکام ، انتشار اور اضطراب ہے۔ امارت اور غربت کی کبھی نہ دیکھی گئی ایک تفریق ہے۔ مسلسل گرتی ہوئی شرح منافع حکمرانوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ زیادہ جارحانہ انداز میں محنت کشوں کی مراعات پر کٹوتیاں کریں۔ فرانس میں پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ایک نسبتاً بڑی تحریک اٹھی ہے۔ پوری دنیا کا حکمران طبقہ محنت کشوں کے مسائل حل نہ کر سکنے کی وجہ سے مسلسل نان ایشوز کی سیاست کر رہا ہے۔ مغرب کے تمام حکمران رجعتی پالیسیوں کو اُبھار کر محنت کشوں کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کر کے اپنی حاکمیت کودوام دینے کی کوششوں میں ہیں۔ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ پورے کرۂ ارض پر وحشتوں کا سایہ ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ملک کے ملک برباد ہیں۔ جبکہ دوسری طرف محنت کشوں کی آواز فی الوقت یا تو کمزور ہے یا پھر ان کی روایتی قیادتوں نے کھلی غداری کر تے ہوئے سرمایہ داری کے کیمپ کا راستہ چُن لیا ہے۔
پاکستانی سرمایہ داری بھی عالمی سطح پر اِس نظام کے بحران کی عکاس ہے۔ یہاں کی حاوی سیاست ایک طویل عرصے کے سماجی جمود کی وجہ سے تعفن زدہ ہو چکی ہے۔ لبرلزم کے نقاب میں دائیں بازوکی تحریک انصاف اقتدار میں ہے۔ جو درمیانے طبقے کی مختلف پرتوں کے مختلف رجعتی رجحانات کا ملغوبہ ہے جن میں مذہبیت بھی ہے ، بھونڈا قسم کا لبرلزم بھی ہے، منافقت اور کیریئرازم بھی ہے اور جھوٹی حب الوطنی بھی۔ اوپر کی سطح پر اس پر بڑے زمیندار اور سرمایہ دار حاوی ہیں جو درمیانے طبقے میں عمران خان کے دائیں بازو کے پاپولزم کو اپنی وارداتوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ آخری تجزئیے میں یہ گہرے سیاسی خلا اور درمیانے طبقے کے بے صبرے پن کا ایک پراڈکٹ ہے جس کی بنیادیں دلدل میں ہیں۔
پچھلے سو دنوں کے اقتدار میں جس طرح تحریک انصاف کی حاکمیت بے نقاب ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ریاست کے حقیقی حکمران خود کتنی گراوٹ اور بحران کا شکار ہیں۔ ناتجربہ کار نو دولتیوں کی اس حکومت نے زوال پذیر معاشی نظام پر قائم خستہ حال ریاست کی کمزوریوں کو اور بھی عیاں کر دیا ہے۔ 26 جولائی کی تقریر کے عمران خان کے ایجنڈے (جو خود انتہائی سطحی اور بھونڈا تھا) کا بھی حشر نشر ہو چکا ہے۔ الیکشن سے قبل سو دنوں کے پروگرام میں معاشی بحالی، کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن، روزگار کی تخلیق، رہائش کا گھمبیر مسئلہ حل کرنے، گڈ گورننس، محروم قومیتوں کی دادرسی ، فاٹا کے مسائل اور ریاستی ڈھانچے میں اصلاحات کے جو ٹارگٹ طے کیے گئے تھے وہ ڈیم کی تعمیر، تجاوزات کے خلاف آپریشن، توہین مذہب کے عالمی کنونشن ، ٹرمپ اور مودی کے ساتھ بے معنی اور خصی ٹوئٹر مقابلے اور بھیک کے لئے لاحاصل بیرونی دوروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ 100 دنوں میں اپوزیشن جماعتوں کے خلاف بڑھکوں پر تو زور لگایا گیا ہے مگر کوئی ایک ایسا حقیقی اقدام نہیں جس سے معاشرے کی دیوہیکل محروم آبادی کو کچھ ریلیف مل سکے۔ اُلٹا اِس حکومت کے اقدامات سے ان کی حالت اور بھی دگرگوں ہو رہی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ معاشی سکڑاؤ تیز ہو رہا ہے۔ یکساں، سستی اور عام تعلیم کا اب ذکر تک نہیں ہے۔ لاعلاجی سے اسی طرح لوگ مر رہے ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی ریاست کی طرف سے فراہمی کا دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے معاملے کو چند شہروں میں ٹینٹ لگا کر لپیٹ دیا گیا ہے۔ ناجائز تجاوزات کو بے دردی سے ہٹایا تو گیا ہے جس سے لاکھوں لوگ بے گھر اور بیروزگار ہو رہے ہیں لیکن انہیں کوئی متبادل نہیں دیا گیا۔ ان بے آسرا لوگوں کو سڑکوں کی خاک ہی ملی ہے۔ دوسری طرف مالداروں اور خوشامدیوں کی رہائش گاہوں کو جرمانے کے عوض جائز کیا جا رہا ہے۔ کرپشن کا خاتمہ ، اداروں کی تعمیرِ نو، معاشی اصلاحات اور گڈ گورننس سمیت جن مسائل کے حل کے دعوے الیکشن سے قبل کیے گئے تھے ، اب فضا میں تحلیل ہو چکے ہیں۔ بظاہر انتظامی اور سطحی نظر آنے واے یہ ایسے مسائل ہیں جو ایک انقلاب کے ذریعے موجودہ نظام کو ڈھا کر نیا نظام کھڑے کیے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ ان مسائل کو حل نہ کر سکنے کے ادراک کے بعد ان پر انتہائی سطحی درجے کے نان ایشوز کی دھول پھینک دی گئی ہے۔
آئی ایم ایف اور ’’دوست ممالک‘‘ سے قرض مانگنے کو بھیک جیسا شرمناک عمل قرار دینے کے کچھ ہی دنوں بعد تھوکا ہوا چاٹنا پڑ گیا ہے۔ پھر اتنی ہی ڈھٹائی سے ان کے جواز تراشنے اور انہیں ناگزیر اور جائز ثابت کرنے کے لئے نو دولتی وزیروں کا آپس میں ایک شرمناک مقابلہ لگا ہوا ہے۔ اپنے ہی بنیادی اور انتخابی منشور سے انحراف اور اس سے یکسر الٹ اقدامات اور پالیسوں کو ’’لیڈر شپ‘‘ ثابت کرنے کے لئے عمران خان کو پریس کانفرنس کرنی پڑتی ہے۔ پھر پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے لے کر نچلے کارکنوں تک اس انحراف (U-Turn) اور پسپائی کو سیاسی اور انتظامی حکمت عملی کے بنیادی اوصاف ثابت کرنے کا ایک بیہودہ تماشا لگاہو اہے۔ ویسے بھی درمیانے طبقے کی ان پرتوں کے کونسے نظریات، اُصول اور ضمیر ہوتے ہیں کہ ان کو کوئی شرم محسوس ہو۔ موقع پرستی اور طاقت کی پرستش ہی ان کی اخلاقیات ہوتی ہے۔
پہلے اعلانات کیے گئے کہ معیشت ایک بحرانی کیفیت میں داخل ہو سکتی ہے جس کیلئے اربوں ڈالر کی ضرورت ہو گی ، تجارتی خسارہ بلندیوں پر ہے ، زرِمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر رہے ہیں وغیرہ۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ناگزیریت کا علم ہر سمجھ بوجھ رکھنے والے کو تھا۔ لیکن ڈھٹائی سے بیل آؤٹ پیکج نہ لینے کی بڑھکیں ماری گئیں۔ ان تاخیری حربوں سے بحران مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ پھر بھیک کیلئے سعودی عرب، چین اور عرب امارات کے دروازے بجائے گئے۔ آخر کار آئی ایم ایف سے بھیک مانگنا پڑی۔ لیکن ساہوکاروں کی اپنی شرائط ہوا کرتی ہیں۔ لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے کہ عوام کو مزید بدحال کرنے والی شرائط نہیں ما نی جائیں گی۔ بھلا بھکاریوں کی بھی کوئی حیثیت ہوا کرتی ہے ؟ دولت اور طاقت والوں کے اپنے اصول اور نفسیات ہوتی ہے۔ کمزوروں اور مجبوروں کو ان کے آگے سر نگوں ہونا پڑتا ہے۔ باقی سب باتیں ہیں۔
یہ درست ہے کہ یہ سامراجی ادارے لامحالہ اپنی ٹاؤٹ ریاستوں کو آخری سہارہ دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آخر کا وہ بھی انہی سے دولت کماتے ہیں لہٰذا انہیں قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن ناک ضرور رگڑواتے ہیں اور یہی کچھ آج کل آئی ا یم ایف کے ساتھ مذکرات میں ہو رہاہے۔ مذاکرات کے مختلف ادوار میں یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عوام کے مفادات کے تحفظ کی لڑائی لڑی جا ری ہے۔ جبکہ اندر کھاتے معاملات طے پا چکے ہوتے ہیں۔ اگر معاملات ابھی طے نہیں بھی ہوئے تو آنے والے دنوں میں ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ انہیں لینا پڑے گا۔ آخر کا رشرائط ماننی پڑیں گی اور ایک دفعہ پھر عوام سے کڑوا گھونٹ پینے کی اپیل کی جائیگی۔ پرانے حکمرانوں کی طرح ملک کے معاشی مسائل کا سارا ملبہ ماضی کے حکمرانوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی حکمران ہو‘وہ نظام کے طاقتور شکنجوں میں بے بس ہوتا ہے۔ اُسے سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اس کے قوانین کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔
ٓٓآئی ایم ایف کی مجوزہ شرائط میں ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس ریونیو میں اضافہ (یعنی مزید بالواسطہ ٹیکس)، GST کو 17 سے18 فیصد تک لے جانا ، ڈالر کو 150 روپے کے برابر کرنا اور 20 سے 22 فیصد تک بجلی کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔ جن میں سے زیادہ تر پر اتفاقِ رائے ہو چکا ہے۔ سعودی عرب اور چین کے دورے زیادہ تر آئی ایم ایف کو دکھانے کیلئے کیے جا رہے تھے۔ لیکن وہ بھی گھاگ ساہوکاروں کی طرح آرام سے ان کی آنیاں جانیاں دیکھتے رہے۔ انہیں پتا تھا کہ ان کے بغیر پاکستان کی معیشت کے کرنٹ اکاؤنٹ کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
ریکارڈ قرضوں اور ریکارڈ خساروں کی اس معاشی صورتحال میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے حقیقت سے بہت دور پاگل پن پر مبنی بڑھکیں تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ 50 لا کھ گھر پانچ سال میں تعمیر کرنا ممکن ہی نہیں۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے گھر ملا لیے جائیں تو ان کی تعداد بھی پچاس لاکھ نہیں بنتی۔ اتنی بڑی مقدار میں خام مال کی فراہمی اور جدید مشینری پاکستان جیسے ملک میں موجود ہی نہیں۔ خود انیل مسرت، جو پاکستان نژاد برطانوی رئیل سٹیٹ ڈویلپر ہے اور اس آئیڈیا کا ماسٹر مائنڈ ہے ، کے بقول برطانیہ میں ہر سال ایک لاکھ گھر بنانے کی صلاحیت ہے۔ تعمیراتی صنعت سے ملحقہ دیگر 50 کے قریب صنعتوں کی بھی اتنی پیداواری صلاحیت نہیں کہ وہ اتنی بڑی مقدار میں مال تیار کر سکیں۔ بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو ان گھروں کی خرید کیلئے مطلوبہ قوت خرید کی حامل وہ منڈی نہیں ہے جو حکومت کی متعین کردہ رقم اور شرائط پر پوری اتر سکے۔ یہ سوویت یونین اور چین جیسے ممالک کی منصوبہ بند معیشتیں ہی تھیں جن کے تحت چند دہائیوں میں لاکھوں نہیں کروڑوں فلیٹ اور گھر تعمیر کیے گئے تھے اور عام لوگوں کو تقریباً مفت مہیا کیے گئے تھے۔ سرمایہ داری میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ بھی مضحکہ خیز ہے۔ امریکی معیشت جو پاکستان سے 63 گنا بڑی ہے میں ماہانہ دو سے ڈھائی لاکھ نوکریاں پیدا ہوتیں ہیں جن میں زیادہ تر جز وقتی اور کم آمدنی والی نوکریاں ہیں۔ پاکستان اِس بحران زدہ سرمایہ داری کے تحت کیسے سالانہ بیس لاکھ نوکریاں پیدا کر سکتا ہے ؟ وہ بھی ان حالات میں جب پیداوار ی ذرائع کی ترقی اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے کم سے کم مزدوروں کے ذریعے پیداور کی جارہی ہو اور مزید سستی اور کم لاگت پیداوار کیلئے ٹیکنالوجی پر انحصار زیادہ سے زیادہ کیا جا رہاہو۔ دوسری طرف سرمایہ کاری پیداواری صنعت کی بجائے سٹے بازی میں ہو رہی ہے جو تیز رفتار اور منافع بخش ہے۔ ایسے میں یہ دعوے نہ صرف زمینی حقائق کے برعکس ہیں بلکہ احمقانہ ہیں۔ علاوہ ازیں ملک کی معاشی شرح نمو اب کچھ سالوں کی بلندی کے بعد گراوٹ کا شکار ہے اور 4 فیصد یا اس سے بھی نیچے گر سکتی ہے جس سے بیروزگاری کم نہیں ہو گی بلکہ بڑھے گی۔
درحقیقت تحریک انصاف کی یہ حکومت اپنے آغاز سے ہی اضطراب، بدحواسی اور نااہلی کی شکار ہے۔ ہم نے اپنی ماضی قریب کی دستاویزات میں درست پیش گوئی کی تھی کہ اس حکومت کو ہنی مون پیریڈ بھی نہیں مل پائے گا اور اس کی ساکھ تیزی سے گرنے کی طرف جائے گی۔ اِس وقت درمیانے طبقات کے بہت سے افراد بھی تحریک انصاف سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اپنے دعووں اور وعدوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکنے کے ادراک کے بعد حکومت مسلسل نان ایشوز کی سیاست میں مصروف ہے۔ سرمایہ داری کی اس کیفیت میں حکمرانی کرنا، سنگینوں کے تخت پہ بیٹھنے کے مترادف ہے۔ یہ کسی کے کندھوں پہ بیٹھ کر اقتدار میں توآسکتے ہیں لیکن اس ریاست اور سماج پہ حکمرانی کے کچھ اور تقاضے بھی ہیں۔ پچھلے اکہتر سالوں میں کوئی حکومت ایسی نہیں رہی جو امریکہ اور آئی ایم ایف کی امداد کے بغیر چلی ہو۔ یہ کم و بیش تمام سابقہ نو آبادیاتی ملکوں کی تاریخ ہے۔ ماضی کے حکمرانوں اور ’’نئے پاکستان‘‘والوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ سب اسی سرمایہ دارانہ نظام کے مختلف طریقوں پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ ایک طبقے کی حکمرانی ہے جس میں مختلف چہرے اور پارٹیاں آتے ہیں اورسر مایہ دار طبقے کے مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز بھی زیادہ دیر تک انقلابی ہونے کا ناٹک نہیں کر سکے۔ اب ان کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک حد تک ہی اپنے طبقے کے اداروں کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ آخر کار طبقاتی یکجہتی اور مفادات ہی فیصلہ کن ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی عرصہ دراز سے سر مایہ دارانہ ریاست کا آلہ کار بننے کی کی کوششوں میں مصروف ہے اور ابھی تک مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی۔ آصف علی زرداری اور دوسری قیادت دل وجان سے اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن مقتدر ادارے ابھی ان کو زیادہ گھاس نہیں ڈال رہے۔ عرصہ دراز سے پارٹی قیادت اپنے بنیادی منشور سے انحراف کر کے محنت کش طبقے سے غداری کی مرتکب ہو چکی ہے۔ ایسے میں کو ئی پارٹی محنت کش طبقے کے نظریات اور مفادات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ محنت کش طبقہ بے آسراہو کر مایوسی کے اثر میں ہے۔ جہاں ہر طرف سرمائے کے محافظوں اور دلالوں کی یلغار ہے ، ایسے میں محنت کش کسی بھی پارٹی کو درست طور پر اپنی پارٹی نہ سمجھنے کی وجہ سے سیاسی بیگانگی کا شکار ہیں اور ابھی تک مین سٹریم سیاست سے کنارہ کش ہیں۔ روزمرہ کے مسائل حل کرنے والے ٹریڈ یونین پلیٹ فارموں پر بھی زیادہ تر مفاد پرست ٹولے براجمان ہیں۔ لیکن یوٹیلیٹی سٹورز کے ملازمین کی شاندار تحریک نے ثابت کیا ہے یہاں محنت کشوں کی کوئی بھی بغاوت بہت تیزی سے تمام رکاوٹوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ جائے گی۔ اسی طرح طلبہ کی نسبتاً چھوٹی تحریکیں بھی مسلسل نظر آ رہی ہیں جن کی روشنی میں آنے والے دنوں کا منظر نامہ دیکھا جا سکتا ہے۔ سماج میں بظاہر ایک سکوت ہے لیکن اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے۔ اس سارے عمل میں کسی مخصوص ادارے یا شعبے کے محنت کشوں کی بظاہر کمزور للکار بھی اتنی توانا ہو سکتی ہے ساری صورتحال کو بدل کے رکھ دے۔