خطے میں داعش کا ابھار، ایک نئے سامراجی کھلواڑ کی تیاری
داعش کی جانب سے پاکستان میں یہ اتنے بڑے پیمانے کا پہلا حملہ ہے۔
داعش کی جانب سے پاکستان میں یہ اتنے بڑے پیمانے کا پہلا حملہ ہے۔
شجاعت بخاری کا قتل وہ چنگاری ثابت ہوا ہے جس نے بھڑک کر اس مخلوط حکومت کو بھسم کر دیا ہے ۔ لیکن اس کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان کشمیری عوام نے رقم کی ہے۔
مودی سرکار نیو لبرل معاشی پالیسیوں کو لاگو کرتے ہوئے بدترین ریاستی، معاشی اور ثقافتی جبر کے باوجود نہ ہی عالمی معاشی ماہرین کی توقعات پر پورا اتر سکی ہے اور نہ ہی مقامی سرمایہ داروں کی۔
لائن آف کنٹرول کے اُس پار فوجی جبر پر بات کرنے والے کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور اگر اِس طرف اپنے حقوق مانگے جائیں تو انہیں کفریہ کلمات گردانا جاتا ہے۔
27 اَپریل 1978ء کو برپا ہونے والا افغان ثور انقلاب وہ واقعہ تھا کہ آج چالیس سال بعد بھی اس کے اثرات پورے خطے کو متاثر کر رہے ہیں۔
اس کسان مارچ میں ریاست بھر کے ہزاروں کسان شریک ہوئے جوکہ انقلابی نعروں سمیت حکومت کی ناکامی کے خلاف نعرے بلند کر رہے تھے۔
یہ تحریکیں مختلف خطوں میں مختلف فوری ایشوز اور مختلف طرزوں پرابھری ہیں۔ لیکن بنیادی وجہ جبر اور استحصال کا یہ نظام ہے جو پوری دنیا میں عوام کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا رہا ہے۔
’معاشی استحکام‘ کے حصول کے لئے مستقل کٹوتیوں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کی جو پالیسیاں لاگو کی گئی تھیں‘ ان کا نتیجہ سیاسی اتھل پتھل کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری، برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسطرح سے بہتر ہو رہی ہے۔
افغانستان کو سب عالمی اور علاقائی سامراجی گدھ نوچ رہے ہیں۔ کوئی ’تعمیر نو‘ کے نام پر یہ کھلواڑ کر رہا ہے تو کوئی منشیات کے کالے دھن پر پلنے والی جہادی پراکسیوں کی براہِ راست پشت پناہی کر رہا ہے۔
بھارت کے قانون، عدل اور انصاف کے سب سے اعلیٰ بھگوان پر اس کے اپنے ججوں کے یہ الزامات پورے ریاستی نظام کی حقیقت کو عیاں اور عدلیہ کی اصلیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔
جب سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حل نہ ہو تو مذہبی انتہاپسندی اور تعصبات کو ہوا دے کر سماج کو تقسیم کر کے طبقاتی جبر اور استحصال کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔
حالیہ انتخابات میں عوام کی خاطر خواہ شرکت کو شاید کچھ حلقوں میں ’’جمہوریت‘‘ کی کامیابی گردانا جا رہا ہے لیکن اِس سے نیپالی عوام، بالخصوص نوجوانوں کے بائیں جانب جھکاؤ اور دباؤ کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
یہ کھوکھلی بڑھک بازیاں اور پالیسیوں میں تزلزل تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت امریکی سامراج کے زوال کا اظہار ہے۔
استحصال اور جبر کرنے والوں کی رنگت اور قومیت بدلنے سے اس نظام کی اذیتیں کم نہیں ہوتیں۔