وینزویلا پر منڈلاتا ردِ انقلاب!
سب سے بڑھ کر یہ ثابت ہوا ہے کہ اصلاح پسندی چاہے کتنی ہی ریڈیکل کیوں نہ ہو، زیادہ عرصے تک عوام کے سماجی و معاشی حالات میں بہتری اور ترقی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔
سب سے بڑھ کر یہ ثابت ہوا ہے کہ اصلاح پسندی چاہے کتنی ہی ریڈیکل کیوں نہ ہو، زیادہ عرصے تک عوام کے سماجی و معاشی حالات میں بہتری اور ترقی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔
اگر امریکی سامراج پاکستانی ریاست کو مکمل مطیع نہیں کر سکتا تو پاکستان کی بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست کے ادارے بھی چین کی تمام تر سرمایہ کاری اور سرپرستی کے باوجود امریکی امداد کے بغیر نہیں چل سکتے۔
شمالی کوریا کے حکمران ’کم جونگ اُن‘ کی ایٹمی ہتھیاروں کی شیخیاں کچھ لوگوں کو شاید احمقانہ لگیں لیکن ’اس حماقت میں بھی ایک منطق ہے‘۔
حسن روحانی کے الیکشن میں سیاسی آزادی اور انسانی حقوق کے وعدوں کے باوجود ملاں اشرافیہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے عوام پر مزید تشدد کرے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے مغربی رہنماؤں کی جانب سے داعش کی فیصلہ کن شکست اور اس کی ’’کمر توڑنے‘‘ کی باتیں شاید قبل از وقت ہیں اور اس بات پر یقین کرنے والوں کو شدید مایوسی ہوگی۔
آج بھارتی میڈیا نریندر مودی کو بے مثال، باہوبلی، ان داتا، بھگوان کا اوتارجیسی صفات سے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
گزشتہ ستر برسوں میں کشمیر کی آزادی کی تحریک سے یہی سبق ملتا ہے کہ اس جدوجہد کو انقلابی پیمانے پر طبقاتی جڑت کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
قلیل آبادیوں کو بڑے پیمانے کی مراعات دے کر عرب ممالک کی 2011ء کی عوامی تحریکوں سے بچ جانے والی خلیجی بادشاہتیں اب پرانے طریقوں سے نہیں چل سکتیں۔
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
لیبر کی نوجوانوں اور عام طور پر مایوس لوگوں کو زندہ اور پرجوش کرنے میں کامیابی نے ہی الیکشن میں لیبر کے حق میں پھانسہ پلٹ دیا۔
قطری بادشاہت اس چھوٹے سے ملک کو خطے میں ایک اہم طاقت کے طور پر ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے اور درحقیقت خلیجی ممالک میں سعودی عرب کی تھانیداری کو چیلنج کر رہی ہے۔
پیداوار، رسد اور مالیات پر مکمل ریاستی کنٹرول قائم کئے بغیر حالیہ بحران سے نہیں نکلا جا سکتا۔
بلکہ پہلے سے دست و گریباں ’قومی اتحادی حکومت‘ کی صفوں میں مزید چپقلش بڑھے گی، کیونکہ اب اس لوٹ مار کے بازار میں ایک اور حصہ دار کا اضافہ ہوا ہے۔
ان دوروں میں واضح طور پر مذہبی منافرت کی پالیسی کے احیا کا عنصر شامل تھا اگرچہ یہ سب کچھ مذہبی ہم آہنگی اور امن کے نام پر ہوا۔
ملاں اشرافیہ کی اِس رجعتی مذہبی آمریت میں انتخابات صرف سماجی دباؤ اور بغاوت کو تحلیل کرنے کی حد تک ہی ’جمہوری‘ ہوتے ہیں۔