جواد احمد پر فسطائی ٹولے کا حملہ
یہ واقعہ تحریک انصاف کی مخصوص نیم فسطائی سوچ اور گری ہوئی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ واقعہ تحریک انصاف کی مخصوص نیم فسطائی سوچ اور گری ہوئی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔
اتنی پولیس اب تھانوں میں نہیں ہوتی جتنی تعلیمی اداروں میں گھسا دی گئی ہے۔
عمران خان نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے بنفس نفیس بیل آؤٹ ’پیکیج‘ کی بھیک مانگی ہے…
یہ واردات نجکاری کے اُس عمل کو آگے بڑھانے کے لئے جاری ہے جو موجودہ حکومت ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑے پیمانے پہ کرنے کے لئے پر تول رہی ہے۔
کچھ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ 72 سال بعد اب پہلی مرتبہ پاکستان سے ’کرپشن کا خاتمہ‘ ہونے کو ہے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آکر اگر کسی طبقے کا نام لینے تک سے بھی اجتناب کیا ہے تو وہ ’’مزدور طبقہ‘‘ ہے۔
جس طرح تحریک انصاف کی حاکمیت بے نقاب ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ریاست کے حقیقی حکمران خود کتنی گراوٹ اور بحران کا شکار ہیں۔
موصوف نے 1970ء کی دہائی میں بھٹو حکومت کی نیشنلائزیشن کو پاکستان کی تاریخ کا ’’بدترین معاشی جرم‘‘ قرار دیا ہے۔
انہی ’’کمی کمینوں‘‘ کو جب اپنی طاقت اور ذلت کا احساس ہوا تو پھر یہ جاگیردار اور سرمایہ دار چھپتے پھر رہے تھے۔
پاکستانی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کا ایک جائزہ
’’جو قاعدے میں رہے گا وہی فائدے میں رہے گا۔‘‘
اس اقتدار میں آنے کے لئے سفاک اور پتھر دل ہونا لازم ہے۔
پاکستانی سماج کی سرکاری تاریخ حکمران طبقات کی تاریخ ہے۔ 1968-69ء کے ادھورے انقلاب کی تاریخ یہاں کے محنت کشوں کی تاریخ ہے۔
محنت کش طبقات میں شاید ہی کوئی انسان پیسے کی اِس جمہوریت کے بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اپنا ’’نمائندہ‘‘ تصور کرتا ہو گا۔
اعلیٰ حکام تو نوٹس لے کر، کبھی موقع واردات پر پہنچ کر احکامات صادر کردیتے ہیں لیکن پھر ان احکامات پر عمل درآمد تو سرکاری ڈھانچوں نے کروانا ہوتا ہے۔