سی پیک: سامراجی راہداری
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
ایک سوشلسٹ سماج میں ہی جعلی سرحدوں کو مٹایا جائے گا اور ہر دوسرے شعبے کی طرح کھیل کو بھی سرمائے اور منافع کے چنگل سے آزاد کروا کے معراج تک پہنچایا جائے گا۔
اگر بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے تو گلی سڑی اور بوسیدہ ٹرانسمشن لائنیں اور ڈسٹریبیوشن انفراسٹرکچر اس اضافی پیداوار کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے۔
بجٹ بظاہر تو سال میں ایک دفعہ جون کے مہینے میں پیش ہوتا ہے لیکن اصل میں ہر ماہ نئے ٹیکسوں کی صورت میں پورا سال محنت کشوں اور عوام کی زندگیوں کی تلخیاں بڑھتی رہتی ہیں۔
ڈار صاحب نے اس ملک کی کل معیشت کے صرف 27 فیصد کا بجٹ ہی پیش کیا ہے۔
اگر کسی ایک شعبے میں ہی زبان تبدیل کرنی ہو تو اس کے لیے بھی بے پناہ اخراجات، محنت اور وسیع کام درکار ہے۔
ان جعلی لڑائیوں کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول اور غریب عوام کو بربادیوں میں دھکیلتے ہوئے اس نظام زر کی رکھوالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بہت سی عیسائی، یہودی اور اسلامی کمپنیاں بنائی جارہی ہیں جو عوام کے ان نازک عقائد کو استعمال کرکے اپنی اشتہاری اور منافع خوری کی مہم تیز کرسکیں۔
مارکسسٹ ہونے کی حیثیت سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے تو لوگوں کے درمیان سے مقابلہ بازی، لالچ اور تعصب کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
سطح کے نیچے مزدور طبقے میں نجکاری کے گرد ایک شدید غصہ اور نفرت موجود ہے جو کسی ایک چنگاری سے بھڑک کر زر کے اس نظام کو راکھ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔
موجودہ عہد میں مزدورتحریک اور محنت کشوں کو درپیش مسائل کا تدارک کرنے کیلئے صف بندی کی ضرورت ہے۔ صرف دن منانا، ریلیاں اورجلسے منعقد کرنامحنت کشوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
طلبا کے ساتھ پہلی مرتبہ ہزاروں کی تعداد میں طالبات بھی احتجاج میں شریک ہیں اور بھارتی قابض افواج کے مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔
’’آزاد انتخابات، آزاد صحافت اور ایک آزاد عدلیہ کے معنی بہت چھوٹے ہوگئے ہیں کیونکہ آزاد منڈی کی معیشت نے اِن کو اُن اجناس میں تبدیل کردیا ہے۔‘‘
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔
موجودہ حکمران طبقات، اُن کے ادارے اور سماجی و معاشی نظام اس فسطائیت اور جنونیت کو روکنے کے قابل نہیں ہیں، بلکہ وہ تو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس میں شریک ہیں۔