مری آباد کا حصارِ ستم
ہزارہ آبادی کو جس طرح مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے اس کے پیش نظر یہ علاقے شاید غزہ کی پٹی کے بعد کھلے آسمان تلے دنیا کی دوسری بڑی جیل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
ہزارہ آبادی کو جس طرح مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے اس کے پیش نظر یہ علاقے شاید غزہ کی پٹی کے بعد کھلے آسمان تلے دنیا کی دوسری بڑی جیل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کا صفایا کرنے کی ہر کوئی کم از کم بات کرتا ہے۔ لیکن پھر اس بدعنوان سیاست اور حاکمیت میں ان کو ایسی قوتوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے جنکے صفائے کی بات کی جاتی ہے۔
جیسے جیسے یہ نظام معاشی بحران میں مزید دھنستا جا رہا ہے اور بڑھتی ہوئی محرومی اور ذلت کے ساتھ سماجی بوسیدگی زیادہ ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے غیرت کے نام پر قتل کے جرائم کی وحشت بھی بڑھ رہی ہے۔
الیکشن میں پوسٹروں اور بینروں کے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں۔ کارنر میٹنگز مختلف علاقوں کے درمیانے مالدار کاروباری کرواتے ہیں۔ پولنگ ایجنٹوں کے لیے اعلیٰ کھانے پیک ہو کر آتے ہیں۔
یہ درمیانے طبقے کا رجحان درحقیقت مقابلے اور نابرابری پر مبنی زوال پذیر نظام کی تلخ حقیقتوں سے فرار کا راستہ ہے۔
یہ انتفادۂ کشمیر کانفرنس کشمیر کی جدوجہد آزادی کو یہ پیغام دے رہی تھی کہ مہنگی تعلیم، غربت اور بیروزگاری سے بدحال نوجوانوں کو پورے برصغیر میں اس نظام کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں 70 سال بعد بھی ایک جدید قومی ریاست اور یکجا ’’پاکستانیت‘‘ پر مبنی سماجی و اقتصادی اور تاریخی اعتبار سے ایک قوت تشکیل نہیں پاسکی۔
سوائے محنت کشوں اور نظریاتی ساتھیوں کے آپ کا ہوتا کون ہے؟ مشکل وقتوں میں بڑے بڑے ’انقلابی سورمے‘ کہیں بھی بِک جاتے ہیں، کہیں جھک جاتے ہیں اور کہیں آپ کو بھی بیچ دیتے ہیں۔
یہ معاملہ اپنی ظاہریت میں جتنا سادہ نظر آتا ہے اپنی گہرائی میں کہیں زیادہ پیچیدہ معلوم پڑتا ہے۔
اعلیٰ سیاست دان کا معیار زیادہ بلند پیمانے کا جگت باز ہونا رہ گیا ہے۔ ایک تماشا لگا ہواہے جس کے گرد ریٹنگ بنتی ہے اور ٹیلی ویژن چینلوں کے اداکاروں کو صحافی اور سیاستدان بنانے کے معیار طے کرتی ہے۔
اگر اقتدار بدل کر اِس سارے انتشار کو سمیٹنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو یہ بحران کم نہیں ہو گا۔
گزشتہ ستر برسوں میں کشمیر کی آزادی کی تحریک سے یہی سبق ملتا ہے کہ اس جدوجہد کو انقلابی پیمانے پر طبقاتی جڑت کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
ضیا کی میراث بنیادی طور پر مذہبی جنونیت اور ابتدائی کالے سرمائے کے ارتکاز کا گٹھ جوڑ ہے…
عوامی تحریک نے ملکیتی رشتوں کوچیلنج کردیا تھا لیکن اصلاحات کے محدودیت کی وجہ سے ہر دلعزیز قیادت بھی ملکیت کا خاتمہ نہ کرسکی۔
ضیاالحق نے یہ مذہبی نعرہ دیا تھا کہ ’’بات اب تک بنی ہوئی ہے۔‘‘ بات بنی نہیں ہوئی ہے بلکہ بہت بگڑ چکی ہے اور مزید بگڑتی جارہی ہے۔