سال 2019ء: افق پر منڈلاتے بحران اور انقلابی طوفان
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
اِس تحریک نے نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سطح پر مزاحمت اور جدوجہد کے نئے باب کا آغاز کیا ہے جو آنے والے دنوں میں سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کیساتھ جاری رہے گا۔
’’چینی خاصیتوں والا سوشلزم‘‘، جو چین کا سرکاری نظریہ ہے، بنیادی طور پر ریاستی سرمایہ داری کی ایک شکل ہے۔
بنگلہ دیش میں جمہوریت کا ڈھونگ خود اس کے معماروں نے بے نقاب کر دیا ہے۔
کچھ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ 72 سال بعد اب پہلی مرتبہ پاکستان سے ’کرپشن کا خاتمہ‘ ہونے کو ہے۔
اس وقت یمن ایک بڑے قحط کے دہانے پر کھڑا ہے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آکر اگر کسی طبقے کا نام لینے تک سے بھی اجتناب کیا ہے تو وہ ’’مزدور طبقہ‘‘ ہے۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد ریڈیکل نظریات کی طرف راغب ہو رہی ہے جنہیں انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر جیتا جا سکتا ہے۔
جس طرح تحریک انصاف کی حاکمیت بے نقاب ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ریاست کے حقیقی حکمران خود کتنی گراوٹ اور بحران کا شکار ہیں۔
ڈھائی سال مکمل ہوچکے لیکن اس کے باوجود بھی برطانوی حکومت یورپی یونین سے علیحدگی کے بارے میں کوئی معاہدہ کرنے میں ناکام رہی۔
یہ ایک طرح کی شہری مورچہ بندی کا آغاز ہے جو یورپ بالخصوص فرانس میں ایسی تحریکوں کی خاصیت رہی ہے۔
موصوف نے 1970ء کی دہائی میں بھٹو حکومت کی نیشنلائزیشن کو پاکستان کی تاریخ کا ’’بدترین معاشی جرم‘‘ قرار دیا ہے۔
انہی ’’کمی کمینوں‘‘ کو جب اپنی طاقت اور ذلت کا احساس ہوا تو پھر یہ جاگیردار اور سرمایہ دار چھپتے پھر رہے تھے۔
پاکستانی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کا ایک جائزہ
’’جو قاعدے میں رہے گا وہی فائدے میں رہے گا۔‘‘