افغانستان: پراکسی جنگوں کا انتشار
مغربی سامراجوں اور علاقائی ریاستوں کی مداخلت سے افغانستان کی دلدل مزید پیچیدہ اور گہری ہو گئی ہے۔
مغربی سامراجوں اور علاقائی ریاستوں کی مداخلت سے افغانستان کی دلدل مزید پیچیدہ اور گہری ہو گئی ہے۔
اگر کسی ایک شعبے میں ہی زبان تبدیل کرنی ہو تو اس کے لیے بھی بے پناہ اخراجات، محنت اور وسیع کام درکار ہے۔
چین کے سپرپاورنہ بن سکنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چین میں سرمایہ دارانہ صنعت کاری کا ابھاراس نظام زر کے عروج کی بجائے اسکے زوال کے دورمیں شروع ہوا تھا۔
پچھلے چند سالوں میں کوریائی سماج اور معیشت کا بحران مزید بڑھ گیا ہے۔ پورے ملک میں سیاسی اشرافیہ اور کارپوریٹ مالکان کی کرپشن کا چرچا ہے۔
ان جعلی لڑائیوں کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول اور غریب عوام کو بربادیوں میں دھکیلتے ہوئے اس نظام زر کی رکھوالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بہت سی عیسائی، یہودی اور اسلامی کمپنیاں بنائی جارہی ہیں جو عوام کے ان نازک عقائد کو استعمال کرکے اپنی اشتہاری اور منافع خوری کی مہم تیز کرسکیں۔
مارکسسٹ ہونے کی حیثیت سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے تو لوگوں کے درمیان سے مقابلہ بازی، لالچ اور تعصب کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
سطح کے نیچے مزدور طبقے میں نجکاری کے گرد ایک شدید غصہ اور نفرت موجود ہے جو کسی ایک چنگاری سے بھڑک کر زر کے اس نظام کو راکھ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔
یہی یکجہتی جب طبقاتی بنیادوں پر محنت کشوں کو اکٹھا کرکے تاریخ کے میدان میں اتارے گی تو پورے جنوب ایشیا کا سیاسی و سماجی منظر بد ل جائے گا۔
موجودہ عہد میں مزدورتحریک اور محنت کشوں کو درپیش مسائل کا تدارک کرنے کیلئے صف بندی کی ضرورت ہے۔ صرف دن منانا، ریلیاں اورجلسے منعقد کرنامحنت کشوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
طلبا کے ساتھ پہلی مرتبہ ہزاروں کی تعداد میں طالبات بھی احتجاج میں شریک ہیں اور بھارتی قابض افواج کے مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اپنی تمام تر خامیوں اور اندرونی تنظیمی مسائل اور جھگڑوں کے باوجود یہ انقلاب سماج کے لیے آگے کی جانب ایک عظیم قدم تھا۔
’’آزاد انتخابات، آزاد صحافت اور ایک آزاد عدلیہ کے معنی بہت چھوٹے ہوگئے ہیں کیونکہ آزاد منڈی کی معیشت نے اِن کو اُن اجناس میں تبدیل کردیا ہے۔‘‘
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔
موجودہ حکمران طبقات، اُن کے ادارے اور سماجی و معاشی نظام اس فسطائیت اور جنونیت کو روکنے کے قابل نہیں ہیں، بلکہ وہ تو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس میں شریک ہیں۔