نیست پیغمبر و لیکن…
ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود مارکس نے ایک فاقہ مست انقلابی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔
ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود مارکس نے ایک فاقہ مست انقلابی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔
ریاست اور سیاست کے حکمرانوں کی اس تاریخی نااہلی، بدعنوانی، معاشی کمزوری اور کردار کی گراوٹ کا خمیازہ بھی یہاں کے غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
تمام تر معاشی پابندیوں اور سامراجی دھونس کے باوجود کیوبا میں آج بھی منصوبہ بند معیشت رائج ہے جس میں قومی ملکیت میں موجود صنعتیں غالب ہیں۔
تحریک کی پختونخواہ میں بنیادوں سے قطع نظر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کی حمایت بڑھ رہی ہے۔
یہ تحریکیں مختلف خطوں میں مختلف فوری ایشوز اور مختلف طرزوں پرابھری ہیں۔ لیکن بنیادی وجہ جبر اور استحصال کا یہ نظام ہے جو پوری دنیا میں عوام کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا رہا ہے۔
پچھلے عرصے میں یورپ میں عارضی رجعتی رجحانات کے ابھار سے قطع نظر فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں مزدوروں اور نوجوانوں کی جدوجہد مسلسل جاری رہی ہے۔
کبھی دھونس، ریاستی جبر اور بلیک میلنگ کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جائے گی تو کبھی لالچ اور ترغیب کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔
بھٹو کی زندگی اور موت کا سبق یہ ہے معروضی صورتحال کے ساتھ افراد بھی بدلتے ہیں اور طبقاتی جدوجہد کی حرارت میں ریڈیکل بھی ہو جاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ آج کا روس کوئی سوویت یونین نہیں ہے جس کے پاس ایک منصوبہ بند معیشت کی دیوہیکل طاقت ہو۔
قومی آزادی اور خومختیاری کی ہر تحریک کی طرح یہ جدوجہد بھی پورے خطے اور دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت اور یکجہتی سے ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔
حالیہ احتجاجی تحریک کی مزید اہمیت اس حوالے سے بنتی ہے کہ اس میں پشتونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں کے عام لوگ بالخصوص نوجوان بھی شریک ہوئے ہیں۔
یہ ظاہری طور پر پشتونوں کی تحریک دکھائی دیتی ہے لیکن اس تحریک کے سرخیل کارکنان خطے کی تمام مظلوم قومیتوں اور طبقات کو یکجا کرنے کا عزم اور ارادہ رکھتے ہیں۔
’’اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں دوبارہ اسی راستے پر چلوں گا کیونکہ زندگی میں سماج کی انقلابی تبدیلی کی جدوجہد کے علاوہ کوئی دوسرا عظیم مقصد ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
تنگ نظر شعور، چھوٹی سوچ اور سطحی فکر صرف وقتی کیفیات اور ظاہریت تک محدود ہوتی ہے۔
درمیانے طبقے کا پس منظر رکھنے والے نودولتی مہاجر رہنما خود کو ریاست کی حاکمیت کے لئے ناگزیر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے۔