مارکسزم کا خوف
مارکس کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی مارکسزم کے دشمن اس کے نظریات کو رد کرنے کی سعی ناکام کر رہے ہیں۔
مارکس کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی مارکسزم کے دشمن اس کے نظریات کو رد کرنے کی سعی ناکام کر رہے ہیں۔
اعلیٰ حکام تو نوٹس لے کر، کبھی موقع واردات پر پہنچ کر احکامات صادر کردیتے ہیں لیکن پھر ان احکامات پر عمل درآمد تو سرکاری ڈھانچوں نے کروانا ہوتا ہے۔
نودولتیوں کی اس حکومت کے ماہرین اور جگادری ان وارداتوں کو نئے نئے نام دیں گے۔
ان کارپوریشنوں نے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔
پاکستان میں سینکڑوں ایسے افراد اور لیڈر ہیں جن کا تعلق سماج کے نچلے حصوں سے تھا جو اب بڑے بڑے سیاستدان اور نودولتیے بن کر ارب پتی ہوگئے ہیں۔
تحریک انصاف کی نامرادی کا آغاز برسراقتدار آنے سے پہلے ہی ہو چکا ہے۔
سماج کی کوکھ میں ایک عرصے سے پلنے والے سماجی معاشی تضادات ایک خاص مقام پر پہنچ کر اچانک ایک دھماکے کو جنم دے سکتے ہیں۔
پروٹیکشنسٹ تجارتی پالیسیاں امریکہ کی معاشی شرح نمو میں عارضی اضافہ تو شاید کریں لیکن ان سے مستقبل کے تضادات اور مسائل بڑھیں گے۔
گزشتہ دہائیوں کی تمام تر ترقی کے باوجود آج بھی چین کا شمار دنیا کی بڑی غربت والے پانچ ممالک میں ہوتا ہے۔
جو امیدیں عمران خان سے وابستہ کی گئی ہیں اور جو خواب اس نے دکھائے ہیں ان کا بہت جلد ٹوٹنا ناگزیر ہے۔
اس معاشرے میں عزت اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس پیسہ ہو۔
موجودہ تحریک جس میں عوام اپنی آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں‘ ایک امید کی کرن ہے۔
نواز شریف کی یہ مزاحمت اس خلا کی وجہ سے اہمیت اختیار کرگئی ہے جو عوام میں کسی بڑی تحریک کی عدم موجودگی میں پیدا ہوا ہے۔
علاج زندگی کی ایسی سلگتی ہوئی ضرورت ہے جس کے لئے انسان سب کچھ بیچنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔
کم و بیش 90 فیصد آبادی کے حقیقی ایشوز اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو نظر انداز کرکے یہاں نہ تو کوئی جمہوریت چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم آمریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔