فرانس میں ’پیلی جیکٹ والوں‘ کی تحریک، مزاحمت اور جدوجہد کے نئے باب کا آغاز
اِس تحریک نے نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سطح پر مزاحمت اور جدوجہد کے نئے باب کا آغاز کیا ہے جو آنے والے دنوں میں سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کیساتھ جاری رہے گا۔
اِس تحریک نے نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سطح پر مزاحمت اور جدوجہد کے نئے باب کا آغاز کیا ہے جو آنے والے دنوں میں سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کیساتھ جاری رہے گا۔
مارکسزم کی طرف نوجوان نسل راغب ہو رہی ہے۔ حقائق کو جاننے اور متبادل کی تخلیق کی تگ و دو میں انہیں ادراک حاصل کرنا ہو گا کہ سویت یونین میں درحقیقت ہوا کیا تھا۔
مارکسی فلسفہ ایک بین الا قوامی مظہر ہے۔ یہ ساری دنیاکے محنت کشوں کی انقلابی جدوجہد کے تجربے کانچوڑ ہے۔
ادھوری نیشنلائزیشن اور سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے اصلا حات کی کوشش اپنا اظہار بحران کی شکل میں کر رہی ہے۔
’معاشی استحکام‘ کے حصول کے لئے مستقل کٹوتیوں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کی جو پالیسیاں لاگو کی گئی تھیں‘ ان کا نتیجہ سیاسی اتھل پتھل کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
جب سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حل نہ ہو تو مذہبی انتہاپسندی اور تعصبات کو ہوا دے کر سماج کو تقسیم کر کے طبقاتی جبر اور استحصال کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔
سوویت طلبہ بیرون ممالک سے آنے والے طلبہ سے پوچھتے کہ آپ کی حکومت تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپکو کتنے پیسے دیتی ہے۔
مارکسسٹ ہونے کی حیثیت سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے تو لوگوں کے درمیان سے مقابلہ بازی، لالچ اور تعصب کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
نیا سال پرانے سال کا ہی تسلسل ہو گا لیکن اس کی شدت پچھلے سال سے زیادہ ہو گی۔ غیر معمولی عدم استحکام اب معمول بن چکا ہے۔
بالشویک انقلاب نے پہلی دفعہ انسانی تاریخ میں اکثریتی محنت کش طبقے پر مبنی مزدور ریاست قائم کی اور پوری دنیا کے محکوموں کے لئے ایک نئی راہ متعین کی۔
ہمیں صرف غلام رہنے کی آزادی ہے۔
[تحریر: آصف رشید] سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقے کے پاس زندہ رہنے کا واحد ذریعہ روز گار (اجرتی غلامی) ہوتا ہے۔ محنت کش طبقہ اپنی قوت محنت کو سرمایہ دار کے ہاتھ فروخت کر کے اپنے زندہ رہنے کے وسائل تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ لیکن موجودہ بحران […]