سال 2017ء، دنیا کدھر؟

| تحریر: آصف رشید |

امریکہ میں ٹرمپ کی جیت، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا ریفرنڈم اور پوری دنیا کے معاشی زوال میں ہونے والااضافہ اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی حدود کو پہنچ چکا ہے۔ قومی ریاست اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے ہوتے ہوئے نسل انسان کے پاس کوئی خوش آئند مستقبل نہیں ہو سکتا۔ عالمگیریت اپنے تمام ترحربے استعمال کر کے اپنے الٹ میں تبدیل ہو کر تحفظاتی پالیسیوں کی جانب گامزن ہے۔ عالمی معیشت اتنی کمزور اور لاغر ہو چکی ہے کہ ہر نیا سیاسی اور معاشی حادثہ اس کو نئے نہ ختم ہونے والے بحران میں دھکیل دیتا ہے۔
چین کی معیشت کی گرتی ہوئی شرح نمو پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے۔ چینی معیشت کا بحران بحیثیت مجموعی عالمی سرمایہ داری، بالخصوص امریکہ اور یورپ کے بحران کا نتیجہ ہے، جو چینی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہیں۔ چین کو خام مال برآمد کرنے والے افریقہ، لاطینی امریکہ اور آسٹریلیا جیسے خطوں میں بھی شدید بحران کی کیفیت ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق لاطینی امریکہ کی تمام معیشتیں سست روی کا شکار ہو کر سکڑ رہی ہیں۔ برازیل میں باقاعدہ بحران کی کیفیت ہے اور بیشتر ایشیائی معیشتوں کی شرح نمو تخمینے سے کم رہنے کا امکان ہے۔ چینی معیشت جو اس وقت 6.7 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے، آئی ایم ایف کے مطابق 2017ء میں اس کی شرح نمو مزید سست روی کے ساتھ 6فیصد رہے گی۔ لیکن حقیقت میں اس سے بھی کم ہونے کا امکان ہے جو چین سے جڑی دیگر معیشتوں کے لئے خطرناک ثابت ہو گا۔ گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران کے اثرات واضح طور پر سیاسی و سماجی طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں جس سے بورژوا دانش و فکر کا زوال عیاں ہے۔ سنجیدہ بورژوا تجزیہ نگاروں کے پیش کردہ تمام ترحل موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں مقید ہونے کی وجہ سے بحران کو مزید گہرا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سنجیدہ تجزیہ نگار سرمایہ داری کو لاحق خطرات کو بخوبی سمجھتے ہوئے اسکو بچانے کے لئے چیخ چیخ کر اپیلیں کرنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت دنیا میں روایتی سیاست کی ناکامی واضح ہو چکی ہے، جہاں بائیں بازو کی عوامی پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام کو آخری نظام سمجھتے ہوئے اسکو بچانے کے لئے سرگرم عمل ہیں وہیں پر اس تاریخ کے مکافات عمل میں دائیں بازو کی پارٹیاں دہائیوں سے چلے آ رہے سرمایہ دارانہ نظم و ضبط پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں اور اس نظام پر لپٹا ’تہذیب‘ کا لبادہ تار تار ہو رہا ہے۔ بورژوا زی کے سنجیدہ جریدے اکانومسٹ نے موجودہ صورتحال کو یوں بیان کیا ہے، ’ایک شاندار دور کا اختتام ہو رہا ہے، اس دفعہ یہ حملہ بائیں بازو کی بجائے دائیں بازو کی طرف سے کیا گیا ہے جس میں برطانیہ کا بریگزٹ اور امریکہ میں ٹرمپ شامل ہیں۔ 1917ء میں لبرل ضابطے کے زوال اور موجودہ زوال کے مابین کئی مماثلتیں ہیں، روسی انقلاب سے پہلے کے40 سال لبرل کامیابی کے سال تھے، جہاں برطانیہ کی آزاد تجارت نے دنیا کو اکٹھا کیا وہیں امریکہ اور برطانیہ میں لبرل جمہوریتیں مستحکم ہوئیں اور دیگر جگہوں پر بھی کامیابی کی نوید سنائی دے رہی تھی۔ 1980ء کے بعد کے سال بھی کچھ اسی طرح کے تھے جہاں امریکہ کی قیادت میں عالمگیریت تیز تر پھیلی اور کئی ممالک میں جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں‘‘۔ اسی آرٹیکل میں اکانومسٹ بورژوازی کو خبردار کرتا ہے کہ ’’لبرل چیمپینز کو پرانی باتیں دہرانے کی بجائے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں، انہیں امیگریشن پر پریشانیوں کو زیادہ سنگینی سے لینا چاہیے۔ انہیں سرمایہ داری کے اہم مسائل کو ٹھیک کرنے کے لئے دگنا محنت کرنا پڑے گی۔ سیاسی استحکام کو بڑھتی ہوئی (طبقاتی) ناہمواری سے شدید خطرہ لاحق ہے، کمپنیاں ارتکاز دولت سے بلند منافعے کما رہی ہیں، بالشویزم کے احیا خطرناک شرح سے تیز ہو چکے ہیں۔ لبرلز کو زیادہ واضح سوچ اور سنجیدہ عمل سے اس (بالشویزم) کو مزید پھیلنے سے روکنا ہو گا‘‘۔
نیا سال پرانے سال کا ہی تسلسل ہو گا لیکن اس کی شدت پچھلے سال سے زیادہ ہو گی۔ غیر معمولی عدم استحکام اب معمول بن چکا ہے۔ معاشی توازن کے ٹوٹنے سے پوری دنیا میں سماجی اور سیاسی توازن بھی ٹوٹ رہا ہے۔ سیاست میں دائیں سے بائیں کی طرف اکھاڑ پچھاڑ تیزی سے جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی خانہ جنگی، ایشیااور افریقہ میں پراکسی جنگیں مزید بربادی پھیلانے کا باعث بنیں گی۔
دہشت گردی، جو آج کے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا نچڑاہو ا عرق ہے، تیزی سے پھیل رہی ہے۔ سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے اس وبا سے چھٹکارے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آنے والا سال جنگوں، معاشی بحران، معیار زندگی پر حملوں، مزید نابرابری، ناانصافی، غربت، بربادی اور سب سے بڑھ کر انقلابی تحریکوں اور بغاوتوں کا سال ہو گا۔

برکس ممالک کا بحران
نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں، برازیل میں باقاعدہ بحران کی کیفیت ہے اور بیشتر ایشیائی معیشتوں میں شرح نمو تخمینے سے کم رہنے کا امکان ہے۔ عالمی معیشت کا چین کی معیشت پر انحصار پوری دنیا کے لئے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ چین کی معیشت کا برآمدات پر انحصار چینی معیشت کا درد سر بنا ہوا ہے کیونکہ عالمی سطح پر قوت خرید میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ دوسری طرف چین کا قرضے کے اوپر بڑھتا ہو اانحصار انتہائی تشویشناک ہے۔ اس نے چینی معیشت کے ڈوبتے ہوئے جہاز کو وقتی طور پر سہارا تو دیا ہے لیکن اس سے چین کا مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 250 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ پیپلز نیشنل کانگریس نے جی ڈی پی کی گروتھ کے لیے زیادہ لچکدار 6.5سے7 فیصد کا ٹارگٹ متعین کیا ہے۔ سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کی وجہ سے 2014ء سے اب تک زرمبادلہ کے ذخائرمیں 25 فیصد کمی ہوئی ہے جو 2011ء سے اب تک کم ترین سطح پر ہیں۔ چین کی برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ چین نے 2015 ء میں امریکہ کو 410 ارب ڈالر کی برآمدات کی ہیں۔ اگرٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں اعلان کردہ اقدامات لاگو کرتا ہے تو امریکی منڈی میں چینی مصنوعات کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ ہو گا۔ جس سے چین کی برآمدات مزید کم ہوں گی۔ منافوں میں کمی کے باعث مزید صنعتیں بند ہوں گی اوربیروزگاروں کی فوج میں مزید اضافہ ہو گا۔ چین اپنی داخلی کھپت کو بڑھانے اور قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے نئی اصلاحات متعارف کروا رہا ہے۔ جس میں ریاستی پیکج کے خاتمے سے ریاستی کنٹرول میں چلنے والی بہت سی چھوٹی صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ ایسے معاشی حالات میں چین میں دنیا کی سب سے بڑی غربت اور امارت کی خلیج موجود ہے۔ چین میں تقریباً 96 کروڑ لوگ 5 ڈالر یومیہ یا اس سے کم اجرت پر گزارہ کرتے ہیں۔ چین کو ہر سال 1 کروڑ نئے روزگار پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو معاشی شرح نمو گرنے سے بہت ہی مشکل ہو گیا ہے جس سے چین کی کمیونسٹ پارٹی میں شدید تناؤ کی کیفیت ہے۔ کرپشن کے خلاف مہم سے لے کر مارکس اور لینن کو پڑھنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف محنت کشوں کی طبقاتی کشمکش میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے سال 1400 ہڑتالیں ہوئی تھیں، اس سال کے پہلے دس ماہ میں 2271 ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ چین کا محنت کش طبقہ ہی چین کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
برکس میں ایک اور اہم ملک بھارت ہے جہاں مودی کی جانب سے بڑے کرنسی نوٹوں، جو کہ اس کی کرنسی کا 85 فیصدہیں، کی منسوخی سے شدید انتشار پھیلا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بھارتی معیشت میں ترقی کا اندازہ 2016 ء کے آخر میں 7.4 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دیا ہے۔ جے پی مارگن کے مطابق2017 ء میں ترقی کی شرح میں اضافہ نصف فیصد کم ہو کر 6.7 فیصد ہو جائے گا۔ مودی اصلاحات کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بھارت میں پچھلے دو سال میں دو بڑی عام ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ مودی کو ایک طرف عالمی مالیاتی اداروں کے پریشر کا سامنا ہے تو دوسری طرف محنت کش طبقے کی تحریک میں شدت آتی جا رہی ہے۔ آنے والے سال میں طبقاتی کشمکش کی نئی اٹھان ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
اس طرح روس کی معیشت بھی خسارے اور بحران کا شکار ہے جہاں پر پیوٹن اپنے آپ کو ایک سخت گیر لیڈر کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ پچھلے دو سال سے روسی معیشت ایک گہرے زوال کا شکار ہے جس کے اسباب میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں، بیرونی سرمایہ کاری میں شدید کمی اور یورپ کی طرف سے عائد پابندیاں شامل ہیں۔ معیشت کا گروتھ ریٹ منفی میں ہے، مافیا سرمایہ داری کا راج ہے۔ پیوٹن بظاہر جتنا جارحانہ رویہ اختیار کر لے، حقیقت میں یہ اتنا ہی کمزو ر اور لاغر حکمران ثابت ہو رہاہے۔ اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق، ’’1917ء میں زار کے روس کے وقت کی طرح آج کے روس میں بھی تبدیلی کے لیے حالات پک کر تیار ہو چکے ہیں۔ مسٹر پیوٹن کو امیدہے کہ سوویت یونین اور ماضی کی زار شاہی کو ملا کر وہ روسی سلطنت کے مرکزے کو بادشاہت جیسے انہدام سے بچا سکتے ہیں لیکن شدید معاشی تنزلی اور پیوٹن کا بڑھتا ہوا بدترین احساس برتری اس زوال کو شدید کر رہا ہے جس کی وجہ سے بالشویک انقلاب کا بھوت بے تاب ہو رہا ہے۔ لینن بھی شاید اپنے آپ کو ہنسنے سے نہ روک سکے۔ ‘ ‘ یہ اس وقت کے سنجیدہ ترین بورژوا جریدے کا پیوٹن کو انتباہ اور نصیحت ہے جس سے نظام کا خلفشار واضح طور پر عیاں ہورہا ہے۔

امریکہ اور یورپ
امریکہ کے گروتھ ریٹ میں کچھ بہتری ہوئی ہے جس سے بیروزگاری کی شرح میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف فیڈرل ریزرو بینک نے شرح سود میں اضافہ کیا ہے جس سے ڈالر کسی حد تک بظاہر مستحکم نظر آتا ہے۔ لیکن بینک کے لئے تشویشناک بات یہ ہے کہ افراط زر ابھی بھی 2 فیصد سے نیچے ہے۔ شرح سود میں اضافے کا مطلب ڈالر کی قدر میں اضافہ ہے لیکن اس سے امریکہ کی برآمدات شدید متاثر ہو ں گی اور سستی درآمدات کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھے گا جو ٹرمپ کے حامیوں کے لئے تشویشناک صورتحال ہے۔ اگر امریکہ جیسی بڑی معیشت میں کاروبار متاثر ہوتا ہے اور یورپ میں جمود کی کیفیت برقرار رہتی ہے تو اس کے بھیانک اثرات مرتب ہو ں گے۔ حالانکہ ٹرمپ ایک انتہائی دائیں بازو کی لفاظی کے ساتھ اقتدا ر میں آیا ہے لیکن مشکل سے ہی یہ اس پر عمل کر سکے گا۔ اس سے پیشتر مودی بھی اسی قسم کے پروگرام سے ہندوستان میں بر سر اقتدار آیا تھا لیکن یہ بھی اپنے پروگرام پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہا ہے۔ ٹرمپ حکومت کے دوران برسوں سے دبے طبقاتی تضادات مزید شدت اختیار کریں گے، امریکہ میں پچھلے عرصے میں آکو پائی وال سٹریٹ، ’بلیک لائیوز میٹرز‘، ڈیکوٹا پائپ لائن کے تنازعے جیسی کئی تحریکیں چلی ہیں۔ آنے والے عرصے میں ان سے بڑی اور زیادہ جارحانہ تحریکوں کے امکانات ہیں۔ ان انتخابات میں جہاں امریکی ریاست و سیاست کا جمہوری نقاب بری طرح سے چاک ہوا ہے وہیں پر آنے والے وقت میں تحریکوں کو ایک نئی شکتی اور محنت کشوں کی پارٹی بننے کے عمل کو تقویت ملے گی۔
یورپ اس وقت معاشی بحران کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 2017ء کا سال یورپ کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس وقت بہت سے ملکوں میں سیاست دان، بینکار اور معیشت دان یورو کو چھوڑ کر اپنی اپنی ملکی کرنسیوں کی طرف لوٹنے کی بات کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ کے بعد حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ ایک طرف عوام کی زندگیو ں کی اذیت میں اضافہ ہوا ہو رہا ہے، وہیں پر بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز کی تنخواہوں میں تیز تر اضافہ ہوا ہے۔ لینسیسٹر یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق ان کی میڈین تنخواہ 2014ء تک 1.9 ملین پاؤنڈ ہو چکی ہے جو کہ پچھلے گیارہ سالوں میں 82 فیصد اضافہ ہے جبکہ عام محنت کش کی میڈین تنخواہ محض 22 ہزار پاؤنڈ ہے۔ بینک آف انگلینڈ نے بھی خبردار کیا ہے کہ آنے والا سال بے یقینی اور کئی اہم معاشی حوالوں سے کٹوتیوں کا سال ہو گا، معاشی بحران اپنا اظہار سیاست میں کرے گا۔ کئی تجزیہ نگاروں کی طرف سے وزیر اعظم تھیریسا مے کی طرف سے آرٹیکل 52 کے استعمال سے جلدی انتخابات کروانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے لیکن معاشی و سماجی بحران میں ایسا کرنا ایک جوے سے کم نہ ہوگا۔ دوسری طر ف لیبر پارٹی میں نئے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، آنے والے سال میں طبقاتی بنیادوں میں مزید صف بندیاں ہونگی جس میں مارکسٹوں کے لئے خاطر خواہ مواقع پیدا ہو نگے۔
جرمنی میں فروری میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں انجیلا مرکل نے دوبارہ حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ مرکل کو دائیں بازو کی جماعت’ آلٹرنیٹو فار جرمنی‘ (AfD) سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ رائے عامہ کے تازہ سروے کے مطابق مرکل کی ’کر سچن ڈیموکریٹک پارٹی‘ (CDU) کو اس وقت 35 فیصد حمایت کے ساتھ برتری حاصل ہے، جبکہ Afd کو محض 13فیصد حمایت حاصل ہے، لیکن آنے والے وقت میں صورتحال بدل سکتی ہے۔ بائیں بازو کی پارٹیوں میں سوشل ڈیموکریٹس(SPD) کو تقریباً 22 فیصد حمایت حاصل ہے۔ زیادہ بائیں بازو کی پارٹی Die Linke کو 9 فیصد حمایت حاصل ہے۔ لیکن معاشرے میں پولرائزیشن کا فائدہ انتہائی دائیں باز و کے گروپ حاصل کر رہے ہیں، سوشل ڈیموکریٹس کی جانب سے مرکل کی بالواسطہ حمایت اور واضح پوزیشن نہ لینے سے ان کی حمایت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں پولرائزیشن بڑھے گی اور بائیں طرف بھی زیادہ ریڈیکل رجحانات جنم لیں گے۔
2017ء میں فرانس میں اہم انتخابات ہونے جا رہے ہیں جہاں فی الوقت دائیں بازو کے رجحان حاوی ہیں۔ دائیں بازو کی پارٹی ’فرنٹ نیشنل‘ کی لیڈر میرین لی پین (Marine Le Pen) ہے جبکہ ریپبلکن پارٹی کا رہنما فرنکوس فیلن ہے جو کہ بڑے فخر سے بدنام زمانہ مارگریٹ تھیچر کو اپنا آئیڈیل کہتا ہے۔ گارڈین اخبار کے مطابق ’’مسٹر فیلن سماجی قدامت پرست اور اقتصادی لبرل ازم کا حسین امتزاج ہے جو کہ معیشت کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے ساتھ پانچ لاکھ نوکریوں کا خاتمہ، قومی صحت کے نظام میں اصلاحات اور فلاح بہبود کے منصوبوں میں بڑی کمی چاہتا ہے۔ ‘‘ دوسری طرف اگرچہ میرین لی پین مہاجرین کے خلاف سخت اقدامات کے ساتھ معاشی طور پر کٹوتیوں کے پروگرام کا دفاع کر رہی ہے لیکن عوامی جلسوں اور ٹیلی ویژن انٹرویوز میں وہ ’بائیں بازو‘ کی لفاظی بڑے اعتماد کے ساتھ استعمال کر رہی ہے۔ وہ اپنے آپ کو عوامی نمائندہ ثابت کررہی ہے جبکہ فیلن کو یورپی کمیشن اور جرمن حکمرانوں کا نمائندہ کہتی ہے۔ ا س کے اقتدار میں آنے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن وہ جس دائیں بازو کے پروگرام پر عمل درآمد کروانا چاہ رہی ہے وہ نہایت جابرانہ سرمایہ داری پر مبنی ہے۔ وہ کئی بار فرانس کے یورپی یونین سے انخلا پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کر چکی ہے۔ نکولس سرکوزی کی ریپبلکن پارٹی کے پرائمری انتخابات میں شکست اور موجودہ صدر فرانسوا ہولاند کا انتخابات میں دوبارہ حصہ نہ لینا اس بات کا اظہار ہے کہ مروجہ رہنماؤ ں کو عوام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ جنوری میں سوشلسٹ پارٹی کے پرائمری انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں زیادہ تر رہنماؤں کے تعلقات موجودہ یا پچھلی حکومت سے رہے ہیں۔ لیفٹ پارٹی کے امیدوار میلاشوں نے بھی فرانس کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، انتخابات میں دائیں بازو کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں لیکن آنے والے عہد کے واقعات حیران کن تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی کامیابی کے اثرات ہالینڈ میں مارچ2017ء میں ہونے والے انتخابات میں بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں جہاں ابھی تک گیرت والڈرز کی پارٹی ’پارٹی فار فریڈم ‘ کے جیتنے کے امکانا ت واضح ہیں۔ اس کے پروگرام میں کسی کو بھی سیاسی پناہ نہ دینا، باڈر کو مسلمانوں کے لئے بند کرنا اور تمام مساجد، اسلامی سکولوں پر پابندی لگانا شامل ہیں۔ اس کا مقابلہ ’پیپلز پارٹی فار فریڈم اینڈ ڈیموکریسی‘ سے ہے جس نے دبے لفظوں میں اس کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے کا عندیہ دیا ہے۔
نا برابری میں ہونے والا اضافہ، روزگار کی غیر یقینی صورتحال، نسلی فسادات اور مہاجرین کے مسائل سیاسی عدم توازن کے اہم محرکات ہیں۔ جہاں بائیں بازو کا متبادل میسر نہیں آ سکا وہاں یورپ میں اصلاح پسندی کی ناکامی نے وقتی طور پر قدامت پسندی کی سیاست کو جنم دیا ہے۔ اس وقت یورپ میں اٹلی اور فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہاہے جو یورپی یونین سے علیحدگی کی مہم چلا رہی ہیں۔ یورپ میں سرمایہ داری کے بحران نے یورپی یونین کے مشترکہ مستقبل پر سنجیدہ سوال کھڑا کر دیا ہے۔
سپین میں ایک سیاسی ڈیڈ لاک کے بعد میریانو راجوئے کی دائیں بازو کی پارٹی ’پیپلز پارٹی‘ دوبارہ بر سر اقتدار آچکی ہے۔ اس کے اقتدار میں سب سے اہم مددگار سوشل ڈیموکریٹ PSOE ثابت ہوئی ہے جس نے پارلیمنٹ میں ووٹ نہ ڈال کر اس کے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔ آنے والے سال کے دوران سپین کی معیشت کے محض دو فیصد سے ہی بڑھنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور غربت کے خاتمہ کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اسی سیاسی و معاشی بھونچال میں پوڈیموس جیسی بائیں بازو کی پارٹی بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہے لیکن اس کے متذبذب پروگرام کی وجہ سے اس کی حمایت میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے امکانات کم ہیں، جبکہ دوسری طرف سطح کے نیچے پلنے والے تضادات شدت سے پھٹ کر اپنا اظہار دوسری سیاسی شکلوں میں کر سکتے ہیں۔ 2017ء میں ہی حکومت نے کیٹیلونیا کی آزادی پر ریفرنڈم کروانے کا وعدہ کیا ہے جس کے گرد تحریک بیدارہوسکتی ہے۔ یورپ کے دیگر ممالک کی نسبت سپین زیادہ پسماندہ شمار کیا جاتا ہے جہاں قومی سوال سلگ رہا ہے اور آنے والے وقت میں یہ اہم شکل اختیار کر سکتا ہے۔
یورپی سنٹرل بینک نے 2018ء تک کے لیے اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورت حال میں بہتری کے خاطر خواہ امکانات نہیں ہیں لیکن پیش گوئی کی ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو صرف 1.6 فیصد رہے گی اور افراط زر بھی محض 1.7 فیصد رہنے کاامکان ہے۔ سنٹرل بینک کے مطابق نجی سرمایہ کاری بہت ہی کم ہے۔ ریاستی سرمایہ کاری میں کمی آرہی ہے اور عالمی تجارت تباہی کا شکار ہے جس کے باعث روزگار کے مواقع پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اجرت میں کمی کے باعث معیار زندگی میں شدید گراوٹ آرہی ہے۔ یورپ میں مجموعی طور پر بیروزگاری کی شرح 8.5 فیصد سے زائد ہے اور آنے والے سال اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ اصلاح پسندی کی سیاست ناکام ہے جو آنے والے دنوں میں یورپ میں محنت کشوں کی نئی تحریکوں کوجنم دی گی۔

مشرق وسطیٰ اور افریقہ
ترکی میں طیب اردگان کی مطلق العنان حکومت کوگرانے کی ناکام کوشش کے بعد اردگان کی ضیائی طرزآمریت خونخوار انداز میں آشکار ہو رہی ہے، بنیاد پرستوں کی طرف سے کرسمس کے خلاف شاہراؤں پر بینر آویزاں کرائے گئے، نئے سال (2017ء) کے آمد کی ایک تقریب میں ایک مسلح شخص نے ’رینا نائٹ کلب ‘میں گولیوں کی بو چھاڑ کر دی جس سے 39 لوگ، جن میں غیر ملکی اہلکار بھی شامل ہیں، موقع پر ہلاک ہو گئے، اور بیشتر کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ حملہ آور کو ابھی تک گرفت میں نہیں آسکا۔ معاشی بدحالی کی کیفیت میں بنیاد پرستی کی دہشتگری کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کی ریاست شدید انتشارکا شکار ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے بجٹ خسارہ 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکاہے اور سعودی عرب عالمی منڈی سے 10 ارب ڈالر کا قرض لینے پر مجبور ہے۔ داخلی تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خارجہ محاذ پر سعودی عرب کی سامراجی مداخلت سے معیشت متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی معیشت کی سست روی سے تیل کی قیمت کم رہنے کا امکان ہے جس سے سعودی ریاست کا بحران بڑھے گا۔ شام میں بشارالاسد کی حلب میں کامیابی قطر اور سعودی عرب کی مالیاتی کمزوری کا اظہار بھی ہے۔ لیبیا اور عراق کی ریاستیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ مصر اور ترکی میں آمریتیں خونی کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عرب انقلاب کی پسپائی نے پورے خطہ عرب کو عدم استحکام اور خونریزی میں دھکیل دیا ہے۔
مئی 2017ء میں ہونے والے ایران کے انتخابات پر دنیا نظریں مرکوز کیے ہوئے ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہونے والی ’نیوکلیئر ڈیل‘(جوہری معاہدہ) پر حکمرانوں کے لبرل دھڑے نے بڑے پیمانے پر شادیانے بجائے۔ اس نیوکلیئر ڈیل کو ایرانیوں کے سامنے ایک انقلابی قدم کے طور پر پیش کیا جاتا رہا جس سے تمام مصائب ختم ہو جائیں گے۔ لیکن عوام کی بڑی تعداد کسی قسم کے معاشی فوائد حاصل نہ ہونے پر سخت اضطراب کا شکار ہے۔ حکومتی اعلیٰ افسران کو بڑی تنخواہیں دینے کے سیکنڈل نے بھی روحانی کی مقبولیت کو واضح نقصان پہنچایا ہے۔ ایران کی آریہ نیوز ایجنسی کے ڈائریکٹر میر موہیب بیان نے اس صورتحال کو یوں لکھا، ’’اسکی (روحانی) کی بڑی غلطی ڈیل کو عوام کے لئے فائدہ مند اقدام کے طو ر پر پیش کرنا تھا، اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ ہمارے نیوکلیائی ری ایکٹرز پر قابض ہے، ان کا سوال ہے کہ ایران کو کیا ملا؟ شاید روحانی ایرانی تاریخ کا پہلا صدر ہو جو کہ صرف ایک ہی مدت پوری کر سکے گا جبکہ اس کے پیش رو 8 سال تک صدارت پر قابض رہے‘‘۔  معاشی حوالوں سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری ایک اہم مسئلہ ہے، افراط زر میں کمی کے دعوؤں کے باوجود عوام کی قوت خرید تیزی سے کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے فیکٹریوں کی پیداوار پر بھی اثر پڑ ا ہے، زیادہ تر فیکٹریاں اپنی استعداد سے 50 فیصد کم پیداوار کر رہی ہیں۔ مڈل ایسٹ آئی گروپ کی طر ف سے کئے گئے تازہ سروے کے مطابق 74 فیصد ایرانیوں کی نظر میں نیوکلیئر ڈیل کے بعد ان کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اسی طرح روحانی کی حمایت ایک سال قبل 35 فیصد سے یہ اب صرف 8 فیصد رہ گئی ہے۔ احمدی نژاد کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ایران کی پاسداران کونسل کے متوقع امیدواروں میں محمد باقر قالیبیف (تہران کا میئر)، یا دسعید جلیلی (سابق سیکرٹری نیشنل سکیورٹی کونسل ) شامل ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایک لمبے عرصے کی سخت آمریت اور معاشی جبر کے بعد محنت کش طبقے کو ملنے والی تھوڑی سے راحت بھی ایک تحریک کو پھاڑ سکتی ہے جو کہ تمام منظرنامے کو بدل سکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں 1917ء کا سال افراتفری کا سال تھا جب سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد اس خطے کو سامراجی گدھوں نے تاراج کیا، طاقت کے نشے میں اس خطے کو ظالمانہ انداز میں تقسیم کیا گیا۔ اب ایک صدی کے بعد بھی مشرق وسطیٰ کی اذیتوں میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ فلسطین سے لے کر بحرین تک تمام خطہ خون آلود ہے۔ حماس اور الفتح اب اسرائیل کے وینٹی لیٹر پر زندہ ہیں، جہاں عالمی میڈیا نے فلسطین پر بات کرنا بھی چھوڑ دی ہے وہیں پر فلسطین پر جان کیری اور نیتن یاہو کے بیانات ایک نئی خونریزی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اوباما کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے مڈل ایسٹ کے ڈائریکٹر فل گورڈون نے اس ساری صورتحال کو یوں بیان کیا ہے کہ ’’عراق پر امریکی حملے اور قبضے کا نتیجہ مہنگی آفت کی صورت میں نکلا، لیبیا میں امریکہ نے حملہ کیا لیکن اس پر قبضہ نہ کر سکا جبکہ اس کا نتیجہ بھی مہنگی آفت کی صورت میں نکلا۔ شام میں امریکہ نے (براہ راست)حملہ نہیں کیا، نہ اس پر قبضہ کیا، لیکن اس کا نتیجہ بھی مہنگی آفت کی صورت میں نکلا۔ ‘‘ مشرق وسطیٰ میں جہاں نئے اتحاد بن رہے ہیں وہیں پر پرانے حامیو ں اور نئے حامیوں کے مابین جنگ و جدل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال افریقہ اب قحط زدہ چہروں، خانہ جنگی، غربت، بھوک اور سامراجی یلغار کی علامت بن چکا ہے۔ یہاں کے تقریباً 50 ممالک اور لگ بھگ ایک ارب سے زائد آبادی کا شمار ہی دنیا میں نہیں ہوتا۔ لیکن 2016ء کا سال افریقہ کے لئے سیاسی طو رپر ہلچل کا سال رہا جہاں جنوبی افریقہ میں 1994ء سے بر سر اقتدار افریقن نیشنل کانگریس کو لوکل انتخابات میں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، زمبانوے میں رابرٹ میگابے کے 35 سالہ اقتدار کے خلاف تاریخی احتجاج شروع ہوئے، ایتھوپیا میں 1991ء سے بر سر اقتدار حکمران جماعت کو اب تک کے سب سے بڑے احتجا جوں کا سامنا کرنا پڑا اور گیمبیا میں صدر یحییٰ جامیہہ کو 22 سالہ اقتدار کے بعد انتخابات میں شکست ہوئی۔ اسی طرح جنوبی افریقہ میں حکومت کے خلاف شاندار طلبہ تحریک نے اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا او ر ایک اور اہم افریقی ملک برکینا فاسو میں ماضی کے انقلابی رہنما تھامس سنکارا کی میراث کی اٹھان ہوئی۔

سفارتی تعلقات کی کشیدگی
امریکہ اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی سفارتی چپقلش میں اوباما انتظامیہ نے اپنے آخری ایام میں روس کے35 سفارتکار جاسوسی کے الزام میں امریکہ بدر کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔ پیوٹن نے عیارانہ ردعمل میں پہلے اپنے دفتر خارجہ کے نمائندوں کے ذریعے 35 امریکی سفارتکاروں کی بے دخلی کا فیصلہ سنوایا اور پھر خود اعلان کیا کہ کوئی امریکہ سفارتکار روس بدر نہیں کیا جائے گا۔ روسی سفارتکاروں پر سی آئی اے اور دوسری امریکی ایجنسیوں کی جانب سے یہ الزام ہے کہ انھوں نے امریکی صدارتی انتخابات میں دھاندلی کروائی ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے اسکی تردید کی۔ یہ درست ہے کہ انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں جو مراسلے ہیک کرکے بے نقاب کیے گئے اس میں ہیلری کلنٹن کے جنگی جرائم کھل کر سامنے آئے ہیں۔ روسیوں کو شاید یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر ہیلری کلنٹن برسراقتدار آگئی تو وہ شام، افغانستان اور مشرقی وسطیٰ کے دوسرے علاقوں میں امریکی فوجی جارحیت تیز کرے گی۔ ان پیغامات سے بھی یہی تاثر ملتا ہے۔ لیکن یہاں روس سے زیادہ امریکہ کا مسئلہ بنتا ہے۔ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت کی کیا حالت زار ہوگئی ہے کہ روس جیسی بحران زدہ ریاست اسکے انتخابات کے نتائج کو بدل کر رکھ دے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو امریکی سامراج کی شدید کمزوری کا راز کھلتا ہے۔ اوباما کے دور میں، خصوصاً اسکی دوسری صدارت کے دوران امریکہ کی اقتصادی، فوجی اور سفارتی کمزوریاں بہت زیادہ عیاں ہوئیں۔ سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ میں عراق میں شکست اور شام پرحملے سے گریز اور پسپائی نے اوباما کو رسوا کیا۔ لیکن اس نے جو پالیسیاں اپنائیں وہ اس سامراج کے گہرے بحران کے حوالے سے حقیقت پسندانہ تھیں۔ لیکن اس دیوہیکل سامراج کو جس رعونت اور تکبر کی عادت پڑ گئی ہے اس کے خمار سے اس کے حکمرانوں کے بڑے حصے ابھی تک نکلے نہیں ہیں۔ اگرامریکہ کی اقتصادی و معاشی صورتحال کاجائزہ لیا جائے تو اس کے پاس وہ مالیاتی گنجائش ہی نہیں کہ وہ دنیا بھر میں اتنی مداخلتیں کر سکے اور جنگیں لڑسکے جتنی اس کے سامراجی جاہ جلال کو برقرار رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ اس لیے اوباما کے تحت امریکی حاکمیت نے پراکسی جنگوں اور سفارتکاری کے ذریعے اپنا کام چلانے کی کوشش کی لیکن تاریخ اور واقعات بہت تلخ اور بے رحم ہوتے ہیں۔ جعل سازی زیادہ دیر چل نہیں سکتی۔ جن دو حکمت عملیوں کو اس سامراجی حکومت نے اپنایا تھا ان میں ناکامیاں اب عیاں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی حکام نے، حلب پر شامی افواج کے قبضے کے دوران جو بربادی ہوئی، اس کا ذمہ دار صرف اور صرف بشار الاسد اور اسکے روسی حمایت کاروں کو ہی ٹھہرایا۔ جبکہ شام کوبرباد کرنے والی داعش اور دوسرے مذہبی جنونی گروہوں کو مکمل طورپر درگزر کر کے فراموش ہی کردینے کی کوشش کی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ القاعدہ کے بدلے ہوئے نام ’النصرہ فرنٹ ‘ کو شام میں امریکی سامراج او ر اسکے یورپی اور عرب حواری حکمران ہر قسم کی امداد اور حمایت فراہم کررہے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔ اس امر کو رابرٹ فسک نے کھل کر انڈیپنڈنٹ میں بار بار لکھا ہے لیکن امریکی حکام خاموش ہیں۔ یہی حشر افغانستان میں امریکہ کی اتحاد ی پراکسیوں کے ساتھ ہورہا ہے کہ کل کے دشمن اور قاتل اس کے اتحادی بن گئے ہیں اور ماضی کے عظیم مجاہدین کو، جن کے گیت ریگن اور کارٹر گایا کرتے تھے، اب وحشی درندوں کے نام سے امریکی میڈیا اور حکام پیش کررہے ہیں۔ سفارتی محاذپر بھی امریکی سامراج کو شرمناک پسپائی کر سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑے حلیف، اسرائیلی صہیونی حکمرانوں اور عرب بادشاہتوں میں امریکہ کی اوباما کے تحت تخلیق پانے والی خارجہ پالیسی کے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ایران سے امریکہ کا جوہری معاہدہ ہے۔ امریکہ کی افغانستان اور عراق میں شکست اور 2007-8ء کے مالیاتی کریش نے صرف اسکی قومی اور اقتصادی طاقت پر کاری ضرب نہیں لگائی بلکہ اس سے امریکہ کے حکمرانوں میں ایک شدید عدم اعتماد کی کیفیت پیدا ہوئی ہے جو اسکی سفارتکاری میں عیاں ہے۔ اس سامراج کا المیہ یہ ہے کہ نہ تو وہ بڑی پسپائی برادشت کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ جارحیت کی طاقت رکھتا ہے۔ اگر ہیلری کلنٹن جیت جاتی اور دوبارہ جنگی جارحیت کی پالیسی اپناتی تو وہ امریکی سامراج کے لیے ایک خود کش بمبار ہی ثابت ہوتی۔ کیونکہ اب یہ گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
ایسے ہی حالات ہمیں دنیا بھرمیں نظر آتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ اس معاشی و اقتصادی نظام کی متروکیت ہے جو تاریخ کے ایسے عہد میں داخل ہوچکا ہے جہاں وہ سماجوں کی ترقی کی بجائے تنزلی، زندگی کو خوشی کی بجائے تلخی اور انسانیت کو خوشحالی کی بجائے ذلت ہی دے سکتا ہے۔ چونکہ یہ دنیا آج ایک معاشی اکائی بن چکی ہے اس لیے اس نظام کے بحران سے تمام توازن اور ربط ٹوٹ رہے ہیں۔
2008ء میں عالمی اقتصادی اور مالیاتی توازن بگڑگیا تھا۔ اس سے دنیا بھر میں تحریکیں اٹھنے لگیں، امریکہ میں آکوپائی وال سٹریٹ سے لے کر عرب انقلاب تک، ان تحریکوں کو کوئی انقلابی قیادت نہ ملنے سے مشرق وسطیٰ میں رجعت کی آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ برسراقتدار آرہا ہے، جو روم کے نیرو کی طرح امریکہ کی بانسری بجاسکتا ہے۔ پھر ہمیں یہی بحران ماحولیاتی آلودگی میں ایک مسلسل ابتری کی صورت میں ملتا ہے۔ سرمایہ دارانہ منافع خوری کے دھوئیں اس سیارے کی فضاؤں کو تیزی سے آلودہ کررہے ہیں۔ موسم بدل رہے ہیں اور سیلابوں اور خشک سالی میں شدت آ رہی ہے۔ عالمی تعلقات اور سفارتکاری کے توازن اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ کوئی معلوم نہیں کب، کون، کس کا دوست اور کس کا دشمن ہوجائے۔ یہ خارج ازامکان نہیں کہ ٹرمپ، پیوٹن کا اتحادی بن جائے۔ ویسے چند ماہ پہلے پیوٹن اورطیب اردگان سب سے بڑے دشمن تھے۔ اب بہت بڑے حلیف بن کر انہوں نے شام میں نام نہاد جنگ بندی تک کروائی ہے۔ سب کچھ تیزی سے بدل رہا ہے۔ عدم استحکام کا راج ہے۔ نسل انسان کی بھاری اکثریت ذلت میں مبتلا ہے جس سے نجات اس طبقاتی جدوجہد کے ذریعے اس نظام کواکھاڑے بغیر ممکن نہیں۔ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ نئی نسل جتنا جلد اس کوپڑھ کر عمل پیرا ہوگی، ذلت اور اذیت کا سفر اتنا ہی سمٹ جائے گا۔