ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی
اگر امریکی سامراج پاکستانی ریاست کو مکمل مطیع نہیں کر سکتا تو پاکستان کی بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست کے ادارے بھی چین کی تمام تر سرمایہ کاری اور سرپرستی کے باوجود امریکی امداد کے بغیر نہیں چل سکتے۔
اگر امریکی سامراج پاکستانی ریاست کو مکمل مطیع نہیں کر سکتا تو پاکستان کی بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست کے ادارے بھی چین کی تمام تر سرمایہ کاری اور سرپرستی کے باوجود امریکی امداد کے بغیر نہیں چل سکتے۔
ان دوروں میں واضح طور پر مذہبی منافرت کی پالیسی کے احیا کا عنصر شامل تھا اگرچہ یہ سب کچھ مذہبی ہم آہنگی اور امن کے نام پر ہوا۔
یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ترین خطوں میں یہ بحران اور خلفشار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سرمایہ داری اپنی ترقی یافتہ شکلوں میں بھی استحکام اور معاشی نمو برقرار رکھنے سے قاصر ہے۔
روس اور امریکہ سمیت اس تنازعے میں شامل تمام حصہ دار بخوبی آگاہ ہیں کہ صورتحال ان کے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
دباؤ پہلے ہی سامراجی ریاست کے ایوانوں میں شدید دباؤ اور تناؤ پیدا کررہا ہے۔ یہ ممکن ہے ٹرمپ کو برطرف کردیا جائے۔ لیکن چہروں کے بدلنے سے نظام تو نہیں بدلتے!
ڈونلڈ ٹرمپ جو اندھا دھند جارحانہ پالیسیوں اور فیصلوں کے اعلانات کرتا جارہا ہے وہ امریکی ریاست کے اپنے خارجی اور سفارتی مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ٹرمپ ان کو مسلسل جاری رکھ سکے۔
ٹرمپ کی صدارت شاید امریکہ کی تاریخ کا سب سے پر انتشار اقتدار ہوگا، جس کا آغاز ہمیں حلف برداری کی تقریب کے دوران مختلف جگہوں پر مظاہروں اور توڑ پھوڑ کی شکل میں نظر آیا۔
نیا سال پرانے سال کا ہی تسلسل ہو گا لیکن اس کی شدت پچھلے سال سے زیادہ ہو گی۔ غیر معمولی عدم استحکام اب معمول بن چکا ہے۔
اوباما نے اپنے آپ کو ایک ’تبدیلی‘ کی علامت اور ذریعے کے طور پرپیش کیا تھا۔ لیکن جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خاتمے پر یورپ اور امریکہ کے درمیان تجارتی اور سیاسی تضادات شدت اختیار کرسکتے ہیں۔
ایک طرف ٹرمپ کی جیت سے پھیلنے والی مایوسی اور دوسری طرف اس سے وابستہ امیدیں، دونوں کے ٹوٹنے کے لئے بہت طویل عرصہ درکار نہیں ہو گا۔
کوئی جیتے یا ہارے، امریکی انتخابات میں جیت وال سٹریٹ کی ہی ہوتی ہے۔
ہزاروں ارب ڈالر اس بربادی میں جھونک دئیے گئے جس نے دنیا میں دہشت گردی اور انتشار کو مزید پروان ہی چڑھایا۔
جوں جوں روز مرہ کی خبروں میں دہشت گردی ایک معمول بننا شروع ہوجاتی ہے اس سے مرتب ہونے والی عوامی نفسیات پر ’شاک‘ اور صدمے کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
سرمایہ دارانہ سماجوں کی جدید شکل میں پولیس کا قیام انیسویں صدی کی دوسری چوتھائی کے دوران محنت کشوں کی ہڑتالوں، شہروں میں ہنگاموں اورغلاموں کی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔