سال 2017ء، دنیا کدھر؟
نیا سال پرانے سال کا ہی تسلسل ہو گا لیکن اس کی شدت پچھلے سال سے زیادہ ہو گی۔ غیر معمولی عدم استحکام اب معمول بن چکا ہے۔
نیا سال پرانے سال کا ہی تسلسل ہو گا لیکن اس کی شدت پچھلے سال سے زیادہ ہو گی۔ غیر معمولی عدم استحکام اب معمول بن چکا ہے۔
شامی انقلاب میں عوامی ریلا تمام تفریقات کو بھلا کر نکلا تھا جس کا مقصد تبدیلی لانا تھا۔ لیکن ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی اور واضح راستہ نہ ہونے کی وجہ سے اس خلا کو بنیاد پرستوں اور سامراجی یلغار نے پورا کیا۔
کافی عرصے سے یہ چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ اسد کے اہم ترین اتحادی اس کی جگہ کسی دوسرے نسبتاً کم متنازع لیڈر کو لا سکتے ہیں۔ لیکن فی الوقت اس کا بر سر اقتدار رہنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خاتمے پر یورپ اور امریکہ کے درمیان تجارتی اور سیاسی تضادات شدت اختیار کرسکتے ہیں۔
جہاں ایک طرف سعودی بادشاہوں کی عیاشیوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے وہاں سعودی عرب میں غربت میں بھی تیزی آرہی ہے۔
امریکی سامراج کے خطے میں تیزی سے زوال اور کمزوری کی بدولت مشرقی وسطیٰ میں ایک خلا پیدا ہوا ہے جسے مختلف علاقائی قوتیں اپنے سامراجی عزائم کے تحت پرکرنے کی کوششوں میں ہیں۔
اگر موصل سے داعش کا صفایا بھی کردیا جاتا ہے تو نہ داعش ختم ہوگی اور نہ ہی یہ بربریت، جس میں بہت سے مذہبی گروہ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور ریاستیں ان کی پشت پناہی کررہی ہیں۔
مذہبی فرقہ واریت ان تھیوکریٹک ریاستوں کے ہاتھ میں ایک ایسا اوزار ہے جسے داخلی اور خارجی جبر میں استعمال کرتی ہیں۔
جوں جوں روز مرہ کی خبروں میں دہشت گردی ایک معمول بننا شروع ہوجاتی ہے اس سے مرتب ہونے والی عوامی نفسیات پر ’شاک‘ اور صدمے کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
سعودی عرب کے مختلف شہروں میں 35 چھوٹی بڑی کمپنیوں میں محنت کش تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور خوراک و علاج کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
’عرب انقلاب‘ سے پیشتر پورے خطے میں 12 سے 15 فیصد بے روزگاری تھی۔ اس انقلاب کی پسپائی کے بعد اب یہ شرح 25 سے 30 فیصد ہوچکی ہے۔
اربوں کھربوں کی دولت کے انبار لگانے والے بھی پاکستانی ہیں اور سعودی عرب کے سڑکوں پر پڑے کئی دن کے بھوکے محنت کش بھی پاکستانی ہی کہلاتے ہیں۔
سرمایہ داری کی سیاست، سفارت اور معیشت میں مسئلہ فلسطین کا کوئی حل موجود ہی نہیں ہے۔
اپنے ’’سلطانی‘‘ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے طیب اردگان کی حکومت اب مشرقی وسطیٰ میں بربادی پھیلانے میں دوسری کئی سامراجی طاقتوں کی طرح پوری طرح ملوث ہے۔
اس جنگ کے دوران لاکھوں بے گناہوں کو لقمہ اجل بھی بنا دیا گیا۔ لہو کے دریا بہائے گئے۔ اسلحے سے لے کر تیل تک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور امریکی جرنیلوں نے سینکڑوں ارب ڈالر کمائے۔