خلیجی ممالک میں دربدر غیر ملکی محنت کش، جائیں تو جائیں کہاں؟

| تحریر: لال خان |

طبقاتی تقسیم اور استحصال ایک ایسا جبر ہے جو رنگ، نسل، ذات پات، قوم، مذہب، وطن سے قطع نظر کہیں بھی محنت کشوں کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ہر ملک اور ہر خطے میں محنت کشوں کو اذیت در اذیت سے دو چار رکھتا ہے۔ حال ہی میں خلیجی ریاستوں بالخصوص سعودی عرب میں معاشی بحران کے پیش نظر پاکستان، ہندوستان، فلپائن اور دوسرے ایشیائی ممالک کے ہزاروں محنت کشوں کو نوکریوں سے نکال کر بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان محنت کشوں میں اکثر کو کئی کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں اور اب وہ باقاعدہ قحط سے دو چار ہو رہے ہیں۔ ان کے پاس واپسی کا کرایہ ہے نہ ہی خلیجی ممالک کے جابرانہ قوانین کی وجہ سے مطلوبہ کا غذات پورے ہیں۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان کے حکمران خاندانوں نے دبئی میں جائیدادوں کی خرید پر 85 ارب روپے لٹائے ہیں۔ یہ اربوں کھربوں کی دولت کے انبار لگانے والے بھی پاکستانی ہیں اور سعودی عرب کے سڑکوں پر پڑے کئی دن کے بھوکے محنت کش بھی پاکستانی ہی کہلاتے ہیں۔ لیکن درحقیقت ان کی دنیائیں الگ ہیں۔ مسئلہ طبقے کا ہے۔

Workers unemployed in Saudi Arabia
تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے خلیجی ممالک میں لاکھوں غیر ملکی محنت کشوں کی بیروزگاری کے امکانات ہیں۔

سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں میں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے شدید معاشی بحران ہے۔ یہ بحران درحقیقت سرمایہ داری کی عالمی زوال پزیری اور عالمگیر معاشی بحران کا ہی تسلسل ہے جو مختلف ممالک پر مختلف اندازمیں اثر انداز ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کی آمدن کا 90 فیصد تیل کی برآمد سے وابستہ ہے اور گزشتہ کچھ عرصے کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی فی بیرل قیمت 100 ڈالر سے بھی اوپر کی سطح سے کم ہو کر اس وقت 40 ڈالر کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔ بیروزگاری کا پہلا وار انتہائی تلخ حالات میں قلیل اجرتوں پر کام کرنے والے ایشیائی مزدوروں پر ہوا ہے۔ پاکستانی مزدوروں کو ’امت مسلمہ‘ سے تعلق ہونے کی بھی کوئی رعایت ’عالم اسلام‘ کے ان حکمرانوں نے نہیں دی ہے۔ جبکہ گورے افسران اور تکنیکی ماہرین کو نہ صرف کہیں زیادہ بھاری تنخواہیں اور مراعات خلیجی ممالک میں ملتی ہیں بلکہ ان کی طرف وہاں کے حکمرانوں کا رویہ بڑا مودبانہ اور عاجزانہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایشیائی مزدوروں پر بدترین جبر روا رکھا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں اس وقت تیس لاکھ ہندوستانی، 15 لاکھ پاکستانی اور 10 لاکھ فلپائنی محنت کش مزدوری کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے تقریباً دس ہزار اور پاکستان کے 8750 مزدور کئی ماہ سے بیروزگار ہیں اور ہولناک مفلسی میں واپسی کا راستہ تلاش رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں یہ بحران زیادہ سنگین اور وسیع ہو سکتا ہے۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ نے سعودی عرب کا دورہ کر کے اپنے ملک کے مزدوروں کی واپسی کے بندوبست کا کوئی معاہدہ کیا ہے۔ لیکن ایسے معاہدوں سے محنت کشوں کے مصائب کم ہی ختم ہوتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اس سلسلے میں پہلے سفارتی عملے کو ’کاروائی‘ کے لئے ’خصوصی ہدایات‘ جاری کیں لیکن کئی دنوں بعد جب اس بحران کی خبروں کو دبایا نہیں جا سکا تو میاں نواز شریف نے 50 کروڑ روپے کی امداد کا روایتی اعلان فرما دیا۔ یہاں ایک مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے وفاقی وزیر کو ابھی تک ’برادر اسلامی ملک‘ کا ویزا نہیں ملا ہے اس لئے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان سے محنت کشوں کی بڑے پیمانے ہر ہجرت 1970ء کی دہائی کے وسط میں شروع ہوئی تھی۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد جب عرب ممالک نے مغرب کو تیل کی سپلائی میں کٹوتی کی تو عالمی سرمایہ دارانہ معیشت ’آئل شاک‘ سے دو چار ہوئی۔ کئی دوسری وجوہات اور تضادات کے امتزاج سے اس آئل شاک نے مغربی ممالک میں 1948ء سے شروع ہونے والے معاشی عروج کو زوال میں بدل دیا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک میں اس ’کالے سونے‘ کی بہتات کی وجہ سے تیزی سے ترقی ہوئی۔ اس میں صنعتی ترقی کم اور تعمیراتی کام زیادہ تھے۔ مقامی آبادی میں ہنر مند مزدور بہت کم تھے۔ یوں لیبر کی ضرورت کے پیش نظر ان ممالک میں ایشیائی محنت کشوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔
یہ چھوٹے چھوٹے خلیجی عرب ممالک پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانیہ اور فرانس جیسی سامراجی طاقتوں نے اپنی بندر بانٹ کی غرض سے مصنوعی لکیریں کھینچ کر قائم کئے تھے۔ اس جغرافیائی اور ’قومی‘ تقسیم کا مقصد تیل کی پیداوار پر غلبہ قائم رکھنا تھا۔
خلیجی ممالک میں پاکستانی محنت کشوں کی درآمد کا سلسلہ 1974ء کے بعد چار دہائیوں تک جاری رہا۔ وہاں جانے والے محنت کشوں کی اجرتیں یہاں سے تو کچھ زیادہ تھیں لیکن اوقات کار اور استحصال میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ پاکستان کی اپنی معیشت کی بتدریج بدحالی اور وسیع بیروزگاری کے ساتھ ہجرت کا یہ سلسلہ وسیع ہوتا گیا۔ تاریخی طور پر نا اہل پاکستان کے حکمرانوں نے ان محنت کشوں کے ترسیلات زر سے کافی فائدہ اٹھایا۔ جیسے اس ملک میں معاشی اور سماجی منصوبہ بندی ناپید ہے اور ہمیشہ ’چل چلاؤ‘ کی پالیسی ہی جاری رہتی ہے ایسے ہی ان ترسیلات زر سے حکمران فائدہ تو اٹھاتے رہے لیکن یہ پیسہ محنت کش کس اذیت اور مشقت سے کماتے ہیں اس کا کبھی احساس نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ان کے اہل خانہ اور عزیزو اقارب ان کے بھیجے گئے پیسوں سے مکانوں کو ’کوٹھیاں‘تو بناتے رہے لیکن یہ پیسہ بھیجنے والے محنت کشوں کی ذلت کا ادراک کم ہی رہا۔ اس سے بالخصوص پاکستان کے دیہاتوں اور مضافات میں بے ہنگم اور ناہموار تعمیرات اور معاشرت نے جنم لینا شروع کیا۔ اسی طرح مزدور کی طبقاتی پہچان کو بھی فراموش کرنے کا رجحان کسی حد تک پیدا ہوا۔
لیکن اب یہ سارا عروج زوال میں بدل گیا ہے۔ نہ صرف ترسیلات زر میں کمی سے حکمرانوں کی ’میکرو اکانومی‘کو بڑا دھچکا لگے گا بلکہ بیروزگاری میں اضافہ ہو گا اور سماج میں اقتصادی بحران بھی شدت اختیار کرے گا۔ صرف سعودی عرب سے پاکستانی محنت کش 6 ارب ڈالر سالانہ پاکستان بھیجتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کو 35 ارب ڈالر کی ترسیلات میں سے 28 فیصد صرف سعودی عرب سے آتا ہے۔ کشمیر سمیت پاکستان کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جن کی معیشت کا دارومدار ہی ان ترسیلات پر ہے۔ پہلے ہی معاشی بحران گہرا ہے، اب اس میں مزید شدت آئے گی۔ عام انسان کی زندگی اور تلخ ہو گی۔
نہ صرف بیروزگار ہونے والے محنت کش اپنے ممالک کو واپسی کے لئے دھکے کھا رہے ہیں بلکہ خلیجی ممالک میں جن کا روزگار فی الوقت بچا ہوا ہے ان کی بھی اجرتوں میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن آنے والے دنوں میں بھی نوکریوں میں خاتمے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان ممالک میں اگر لیبر کے کوئی قوانین ہیں بھی تو کاغذی ہیں۔ کفیل سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں اور اکثر اوقات حالات غلام داری سے بھی بد تر ہو جاتے ہیں۔ 50 ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی زیادہ درجہ حرارت پر کام سعودی عرب اور دبئی وغیرہ میں محنت کشوں سے لیا جاتا ہے۔ رہائش اور خوراک بھی انتہائی ذلت آمیز ہوتی ہے۔
یہ بحران جاری رہے گا۔ اگر تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے تو ان ممالک کی معیشتوں کی جو کیفیت ہے اس میں بہتری یا ابھار نہیں آ سکے گا۔ پاکستان کے حکمران، میڈیا اور درمیانہ طبقہ ’جشن آزادی‘ منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ لیکن اس ملک کے لاکھوں کروڑوں محنت کش ملک کے اندر اور باہر سرمائے کی زنجیروں میں جکڑے ہیں۔ طبقاتی غلامی میں آزادی بھلا کیسے ممکن ہے؟ حقیقی آزادی بیروزگاری، محرومی، مانگ اور غربت سے آزادی ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان، علاج ،تعلیم ، روزگار، بجلی اور رہائش پر بنیادی انسانی حق کی حیثیت سے دسترس ہی انسان کو ذلت سے آزاد کر سکتی ہے۔ لیکن یہ سب منافع پر مبنی منڈی کی معیشت کے اس نظام میں ممکن نہیں۔ حقیقی آزادی اس نظام کے خلاف انقلاب مانگتی ہے۔