سال 2019ء: افق پر منڈلاتے بحران اور انقلابی طوفان
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
جدلیاتی طور پر چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور سستی لیبر والا یہی چین آج مغرب کے سامنے ایک معاشی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔
ان کارپوریشنوں نے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔
پروٹیکشنسٹ تجارتی پالیسیاں امریکہ کی معاشی شرح نمو میں عارضی اضافہ تو شاید کریں لیکن ان سے مستقبل کے تضادات اور مسائل بڑھیں گے۔
ٹرمپ کے جواب میں متاثر ممالک بھی ٹیرف لگائیں گے جس سے امریکی معیشت کے مسائل بڑھ جائیں گے۔
’معاشی استحکام‘ کے حصول کے لئے مستقل کٹوتیوں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کی جو پالیسیاں لاگو کی گئی تھیں‘ ان کا نتیجہ سیاسی اتھل پتھل کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
انسان کی لاکھوں سالوں کی محنت اور کاوش سے معرض وجود میں آنے والے یہ پیداواری ذرائع سرمائے کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
ہر سال 1500 ارب ڈالر سے زائد رقم اِن تباہی کے آلات پر دنیا بھر میں خرچ کی جاتی ہے۔ اِن پیسوں سے دنیا میں غربت اور بھوک کا خاتمہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار کیا جا سکتا ہے۔
یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ترین خطوں میں یہ بحران اور خلفشار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سرمایہ داری اپنی ترقی یافتہ شکلوں میں بھی استحکام اور معاشی نمو برقرار رکھنے سے قاصر ہے۔
حکمرانوں کی ترقی محکوموں کی تنزلی بن جاتی ہے۔ امیر کی دولت غریب کی غربت میں اضافہ کرتی ہے۔
س نظام میں منافع کی ہوس بڑھتے بڑھتے ان سرمایہ داروں کی حالت ایک ایسے خونی بھیڑیے کی مانند ہوگئی ہے جس کے جبڑوں کو جب انسانی خون لگ جاتا ہے تو اسکی ہوس مزید بڑھ جاتی ہے۔
اس نظام میں یہی ہوتا آیا ہے، یہی ہو سکتا ہے اور یہی ہو گا۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہی ہوگا۔
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت ایک باریک رسی پر لڑکھڑاتے اور ڈولتے ہوئے چل رہی ہے۔
| تحریر: حسن جان | سرمایہ دارانہ نظام کا موجودہ عالمی بحران وقت کے ساتھ زائد پیداواری صلاحیت کا بحران بن چکا ہے۔ گودام اجناس سے بھرے پڑے ہیں اور ان کی قیمتیں بھی گر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی قوت خرید میں سکت نہیں ہے۔ایسے میں […]
| تحریر: لال خان | پچھلے زمانے کے حکمران اور چور ڈاکو اپنی لوٹ مار کی دولت زمین میں دباتے تھے یا پھر دیواروں اور غاروں وغیرہ میں چھپا دیتے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جدید ٹیکنالوجی کے تحت استحصال کی نوعیت بدلی ہے اور یہ شدید تر ہوتا چلا […]