مقروض ترقی

| تحریر: لال خان |

پاکستان کی تاریخ میں حکمرانوں کے تمام تر دعوؤں کے برعکس یہاں معیارِ زندگی تنزلی کا ہی شکار رہا ہے۔ 1947ء کے خونریز بٹوارے کی بربادیوں کے بعد جب 1950ء کی دہائی کے ا واخر اور 1960 ء کی دہائی میں معیشت کچھ سنبھلی تو کسی حد تک سرکاری معیشت کی ترقی کا ایک عمل ہمارے سامنے آیا تھا۔ لیکن اس کی بنیادی وجہ دوسری عالمی جنگ کی بربادیوں کی تعمیرنوکیلئے مغربی سامراجی ممالک میں ہونے والی سرمایہ کاری اوراسکے سبب اقتصادی عرو ج تھا۔ انقلابات کا ایک طوفان جو ایشیا اور دنیا کے دوسرے براعظموں میں جاری تھا، اس کو زائل کرنے کے لیے سامراجیوں نے پاکستان جیسے ممالک کو نہ صرف امداددی بلکہ ایسی گرانٹس بھی دیں جن پر کوئی سود ہی نہیں تھا۔ اس کا مقصد ایک سوشلسٹ تبدیلی کو روکنا اور اپنے نظام کی اجارہ داری قائم رکھنا تھا۔ یہ سامراجی نظام کے غلبے کو قائم رکھنے کا تقاضا تھا۔ سامراجیوں نے زرعی اجناس، معدنیات اور خام مال کی جدید ٹیکنالوجی اور جنگی سازو سامان کے بدلے تجارت میں ان نوآبادیاتی ممالک کا استحصال اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا، جس سے ان کو ایسی امدادی گرانٹس دینے سے کہیں زیادہ منافع حاصل ہوتا تھا۔
1974ء میں جب دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی سرمایہ داری کا پہلا بڑا زوال آیا تو پھر یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکا اور تجارتی وپیداواری شعبوں کے ساتھ ساتھ ’مالیاتی‘ شعبے میں بھی استحصال شروع ہوگیا۔ امداد، قرضوں میں بدل گئی اور ان قرضوں پر سود در سود سے پاکستان جیسی معیشتوں پر اتنا بوجھ پڑنا شروع ہوگیا کہ سامراجی جکڑ میں ان ممالک کے محنت کش عوام مزید استحصال اور اذیتوں کا شکار ہوتے چلے گئے۔ مغربی سرمایہ داری پھر اُس طرز کی نسبتاًصحت مند ترقی اور شرح منافع حاصل کرنے سے شاید ہمیشہ کے لیے مفلوج ہوچکی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک بھی بری طرح مقروض ہوچکے ہیں۔ سود درسود اور ادائیگیوں کی وجہ سے غریب ممالک کو مزید قرضوں کے بوجھ میں غرق کیا جاتا رہا ہے۔ معاشی بحالی کا کہیں نشان تک نہیں ہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک (OECD) غربت کے خاتمے کے لیے سابق نوآبادیاتی ممالک کو قرضے دیتے ہیں۔ اس کو سرکاری زبان میں ’’امداد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اعداد کے مطابق سالانہ 125 ارب ڈالر اس مد میں غریب ممالک کو دئیے جاتے ہیں۔ تصویر یہ پیش کی جاتی ہے کہ بھاری رقوم ان غریب ممالک کو جارہی ہیں۔ ان ممالک میں بیرونی (سامراجی) سرمایہ کاری کو بھی اس رقم کی ترسیل میں شامل کیا جاتا ہے۔ ’’گارڈین‘‘ کے اعدادوشمار کے مطابق 2012ء میں ان ترقی پذیر ممالک کی طرف کل 1300 ارب ڈالر سرمایہ کاری اورامداد(قرضوں) کی صورت میں ترقی یافتہ ممالک نے منتقل کئے۔ لیکن اسی سال ان غریب ممالک سے 3,300 ارب ڈالر واپس امیر ممالک کو چلے گئے تھے۔ یعنی ان غریب ممالک نے اس نام نہاد امداد یا سرمایہ کاری کی رقم سے 2000 ارب ڈالر زیادہ واپس کیے۔ ’’گارڈین‘‘ کی اسی رپورٹ کے مطابق ہر ایک ڈالر جو ان غریب ممالک کو دیا جاتا ہے اس کے عوض یہ امیر ممالک 24 ڈالر واپس لُوٹ لیتے ہیں۔ یہ وہ مالیاتی نظام یا میکنزم ہے جس کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے سامراجی مالیاتی ادارے چلارہے ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان پر قرضوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے بوجھ کا جائزہ لیا جائے تو اس کا ساراوزن غریب کی کمر پر ہی لاد دیا جاتا ہے۔ طبقاتی نظام میں یہ ناگزیر ہے۔ دوسری طرف قرضے ہیں کہ ہر حکومت میں بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں وزارت خزانہ نے قرضوں کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق بھی یکم دسمبر 2013ء اور 30 نومبر 2016ء کے دوران موجودہ حکومت نے 27.8 ارب ڈالر کے قرضے لیے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا قرضہ آئی ایم ایف کا 6.4 ارب ڈالر ہے، جبکہ دیگر ادارے اور ممالک جن سے یہ قرضے حاصل کیے گئے ان میں عالمی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، حکومت چین اور چین کا ترقیاتی بینک شامل ہیں۔ ان قرضوں پر عائد کردہ سود اور شرائط ظاہر کرنے سے وزارت خزانہ گریز کررہی ہے۔ لیکن کچھ مستند تحقیقات کے مطابق سب سے زیادہ سود لینے والا پاکستان کا سب سے ’’پیارا دوست‘‘ چین ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان قرضوں کا سب سے بڑا حصہ واپس انہی قرضوں پر سود اور انکی قسطوں میں ہی ادا ہوجاتا ہے۔ پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 2013ء کے60.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر اب 74.6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ ان قرضوں کی ادائیگیوں پر بجٹ کا سب سے بڑا خرچہ مختص کیا جاتا ہے۔ صرف ان تین سالوں میں کل داخلی اور خارجی قرضوں میں 43.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان قرضوں پر جو ترقیاتی منصوبے بنائے جارہے ہیں وہ بہت حد تک نمائشی نوعیت کے ہیں۔ اگر ہم علاج اور تعلیم کا ہی جائزہ لیں تو انسان کی ان سب سے بنیادی ضروریات کے لیے صوبائی حکومتوں کے پراجیکٹ صرف دکھاوے کیلئے ہیں۔ ان سرکاری منصوبوں کے سائے تلے آبادی کی بھاری اکثریت نجی شعبے سے علاج اور تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ ان اجتماعی ضروریات کی سرکار کی طرف سے فراہمی پچھلی 4 دہائیوں سے مسلسل سکڑتی جارہی ہیں۔ لیکن تعلیم اور علاج کا نجی شعبے میں پھیلاؤ اس لیے ہے کیونکہ انکے بغیر زندگی کا گزرا نہیں اور انسان اپنا سب کچھ لٹا کر بھی اپنے بچوں اور بزرگوں کے لیے انہیں ہر صورت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نجی سرمایہ کار زخموں، تکالیف اور بیماریوں کے علاج کے لیے بیوپاریوں کی طرح منہ مانگی رقوم وصول کرتے ہیں۔ بیمار اور مفلس عوام ان کو یہ دینے پر مجبور ہیں۔ اسی مجبوری سے یہ شعبے اب اس ملک کے کاروبار میں سب سے منافع بخش بھی بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی قرضوں پر مبنی ترقی عوام کے لیے زندگی کو سہل کرنے کا کوئی وسیلہ پیدا نہیں کرتی بلکہ ان کو محروم سے محروم تر کرتی ہے۔ حکمرانوں کی ترقی محکوموں کی تنزلی بن جاتی ہے۔ امیر کی دولت غریب کی غربت میں اضافہ کرتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے سامراجی آقا جو قرضوں اور مالیاتی وتجارتی لوٹ مار کررہے ہیں وہ کسی بھی کرپشن یا دھاندلی سے بڑا فراڈ اور ڈاکہ زنی ہے۔ لیکن نہ اس پر کوئی کیس دائر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی عدالت اس درندگی پر کوئی ’’سووموٹو‘‘ ایکشن لیتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر موجودہ ن لیگ حکومت چلی بھی جاتی ہے تو اسکے بعد چاہے پی ٹی آئی کی حکومت بنے یا اس نظام کی معاشی پالیسی پر مبنی کسی اور پارٹی یا اتحاد کی حکومت بنے، پالیسیاں یہی رہیں گی۔ اس سامراجی ڈاکہ زنی کیخلاف نہ کوئی مقدمہ ہوگا، نہ کوئی بڑا قدم اٹھانے کی اس’ مالیاتی سیاست‘ کے کسی لیڈر کی جرات ہے۔ سب کے سب اسی نظام زر کی پیداوار ہیں۔ انکی سیاست بھی پیسے سے چلتی ہے، اقتدار کے سودے بھی مال سے ہوتے ہیں اور آخری تجزیے میں حکمران طبقات کے یہ سیاسی دھڑے اسی پیسے کے لئے نوراکشتیاں بھی جاری رکھتے ہیں۔ یہ سب آئی ایم ایف اور سامراج کے وفادار اور تابعدار ہیں۔ نہ سامراجی قرضے ضبط کرسکتے ہیں اور نہ ہی انکی ’سرمایہ کاری‘ کی لوٹ مار ختم کرسکتے ہیں۔ بس سبھی کمیشن لیتے ہیں، نجکاری سے بھی اور تجارت سے بھی، لٹتے محنت کش اور غریب ہیں۔ انکی صرف سیاسی شعبہ بازی جاری رہتی ہے۔ لیکن جو لُٹ رہے ہیں، بلک رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، وہ سدا خاموش اور ماتم کناں نہیں رہیں گے۔ اس سامراجی اور مقامی سرمایہ داری کے خلاف بغاوت کے علاوہ انکی بقا اور نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

متعلقہ:

’’خفیہ خزانے‘‘

مرتے ہوئے نظام کی وحشت