کرائسٹ چرچ کا قاتل کون؟
اِس مذہبی و نسلی جنون، جو وقتاً فوقتاً دہشت گردی کی شکل اختیار کرتا ہے اور اپنے مخالف جنون پر پلتا ہے، کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟
اِس مذہبی و نسلی جنون، جو وقتاً فوقتاً دہشت گردی کی شکل اختیار کرتا ہے اور اپنے مخالف جنون پر پلتا ہے، کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟
وقتی خلل یا رکاوٹوں کے باوجود حکمران اس بغاوت کو کمزور اور بے سمت نہیں کر سکتے۔
جبر کے اداروں کی وردیوں کے رنگ بدلنے یا کوئی دوسری نام نہاد اصلاحات کرنے سے وہ ’’عوام دوست‘‘ نہیں بن سکتے۔
اس کھیل کے پیچھے چھپی معاشی بنیادوں کو زیر بحث لایا جانا اور ان کے تدارک کیلئے اقدامات ہی وقت کی ضرورت ہیں۔
قارئین کی بھرپور فرمائش پر ہم کچھ عرصہ قبل ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘ (AMR) کے لئے اُن کی ایک خصوصی تحریر کا اردو ترجمہ شائع کر رہے ہیں۔
داعش کی جانب سے پاکستان میں یہ اتنے بڑے پیمانے کا پہلا حملہ ہے۔
ریاست اور سیاست کے حکمرانوں کی اس تاریخی نااہلی، بدعنوانی، معاشی کمزوری اور کردار کی گراوٹ کا خمیازہ بھی یہاں کے غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
مشال خان نے جن مسائل کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی وہ اِس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے ناگزیر مضمرات تھے۔
ایسی وارداتوں کی تفتیش کا فیصلہ کن نتیجہ نہ پیش کرسکنا اور کسی ٹھوس عدالتی فیصلے کا نہ ہو پانا بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔
جہاں ایک طرف قومی محرومی اور جبر کے خلاف ایک سرکشی چل رہی ہے تو دوسری طرف ریاست نے اس سرکشی کو کچلنے کے لیے پورے بلوچستان کو ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
ہزارہ آبادی کو جس طرح مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے اس کے پیش نظر یہ علاقے شاید غزہ کی پٹی کے بعد کھلے آسمان تلے دنیا کی دوسری بڑی جیل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کا صفایا کرنے کی ہر کوئی کم از کم بات کرتا ہے۔ لیکن پھر اس بدعنوان سیاست اور حاکمیت میں ان کو ایسی قوتوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے جنکے صفائے کی بات کی جاتی ہے۔
یہ درمیانے طبقے کا رجحان درحقیقت مقابلے اور نابرابری پر مبنی زوال پذیر نظام کی تلخ حقیقتوں سے فرار کا راستہ ہے۔
کراچی میں 100 سے زائد تھانے ہیں جن میں سے 52 تھانوں کے ریکارڈ میں جرائم بڑھے ہیں۔
سلام آباد میں بیٹھ کر داعش جیسی تنظیموں کی سر عام حمایت پر ریاست کا معمولی سا بھی رد عمل سامنے نہیں آتا۔ بلکہ وزرا اور ریاستی حکام ان کے ہولناک بیانات اور عام شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کی توجیحات گھڑتے نظر آتے ہیں۔