تحریر: قمرالزماں خاں
ساہیوال سانحہ کے ’’نامزد‘‘ سرکاری ملزمان نے فرد جرم ماننے سے انکار کرکے اپنے بے گناہ ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ وردی پوش بندوق برداروں نے وہی بیان دیا ہے جو اس قسم کے ہزاروں نام نہاد پولیس مقابلوں کے بعد جاری ہونے والے سرکاری ہینڈ آؤٹس میں دیا جاتا ہے۔ یعنی مرنے والے اپنے ہی ساتھیوں کی کراس فائرنگ میں جاں بحق ہوگئے۔ کہا جا رہا ہے کہ سات انسانوں سے بھری کار، جو سرکاری گاڑی کی ٹکر سے رک چکی تھی، کے اوپر گولیاں ان مبینہ ’’دہشت گردوں‘‘ کے موٹرسائیکل سوار ساتھیوں نے ہی برسائی تھیں۔ پھر یہ مبینہ ساتھی پولیس کی بھاری جمعیت کو جُل دے کرنکلنے میں کامیاب بھی ہوگئے۔ ہر جعلی پولیس مقابلے کا آخری سین ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ تادم تحریر جے آئی ٹی کے بعد اب ’’تحقیقات‘‘ کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ لیکن اس کیس میں مارے جانے والے چارانسانوں اور زخمی ہونے والے دوننھے بچوں پر گولی کس نے چلائی ؟ حکم کس نے اور کیوں دیا؟ ذمہ دار کون ہے؟ ان سوالات کا جواب مروجہ قانون میں ہی موجود چور دروازوں سے نکل کر انصاف کے کسی بلیک ہول میں ہمیشہ کیلئے گم ہو جائیگا۔ اور مرنے والوں کے لواحقین ساری زندگی نام نہاد انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں کی راہداریوں پر ہی ایڑیاں رگڑتے رہ جائیں گے۔
دو معصوم بچیاں جن میں سے ایک کے ہاتھ میں فیڈر تھا اور دوسری کا ہاتھ گولی سے چھلنی تھا اور انکابڑابھائی 10 سالہ عمیر، جس کی ٹانگ کے آرپارسیسہ بھری گولی گزرچکی تھی، کا صبر اورخاموشی‘ زندگی بھر کیلئے بے بسی اور بے چارگی میں بدل جائیں گے۔ انکی آہیں، سسکیاں اوروہ چیخیں جو حالات کے جبر نے ان کے جسم میں ہی قید کردی ہیں اب عمر بھر ڈائن بن کر ان کو ڈرائیں گی۔ اس قتل عام نے چند منٹ میں ہی جس دس سالہ عمیر کو بے سہارا کر کے اپنی بچ جانے والی ننھی بہنوں کا سہارا بننے پر مجبور کر دیا، وہ ساری عمراس بھیانک ظلم کا جواز ڈھونڈتے ڈھونڈتے انسانی حواس، جذبات اور نارمل زندگی سے ہاتھ دھونے پرمجبور ہوجائے گا۔ اس برباد گھرانے کے بچ جانے والے معصوم بچوں کی زندگی ’سلگتی راکھ‘ کی طرح نہ جل سکے گی نہ بجھ سکے گی۔ وہ کبھی یہ نہیں جان پائیں گے کہ ان کا اپنا کیا جرم تھا جس کی سزا زندہ بچ جانے کی شکل میں انہیں ملی ہے۔ انہیں یہ بھی ادراک نہیں کہ جس طوفان نے ان کو والدین اور بڑی بہن سے ہمیشہ کیلئے جدا کردیا ہے اس سے بھی بڑے طوفان اب انکی زندگیوں کوہمیشہ ہی نشانہ بناتے رہیں گے۔ اس اندوناک واقعہ، جس نے ایک ہنستے بستے گھرکو تہس نہس کردیا ہے اور ہردیکھنے اورسننے والے کے دل میں چھید کردیئے ہیں، کے عقب میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے ہی واقعات ہیں۔ ایسی چیخیں اور آہیں جو پختون خواہ سے لے کے بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراکر فضاؤں میں ہی بکھرگئیں۔ نہ کسی اخبارمیں رپورٹ ہوئیں ‘نہ سوشل میڈیا تک پہنچ پائیں۔ اگرایسی کوئی خبر نکلی بھی تو لاشوں سے بھی زیادہ مسخ ہوکر، جس میں ’’دہشت گردوں‘‘ کو تہس نہس کرنے کی نوید دے کر بغلیں بجائی گئیں۔
آج اس کٹھ پتلی جمہوریت میں غیر اعلانیہ سنسر شپ سچ کھانے والا اژدھا بن چکی ہے۔ ساہیوال سانحے نے قصور کی معصوم زینب کی موت کی طرح ایک دفعہ پھرپورے ملک کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ یہ ایک ہولناک منظرہے جو پاکستان کے لوگوں کے دلوں کو گھائل کرگیاہے۔ ساہیوال سانحے سے قبل ملتان میں قادرپوراں کے قصبے کی پولیس نے مقامی رکن صوبائی اسمبلی کی خواہش کی تکمیل میں عمران نامی 26 سالہ تنومند نوجوان کو مبینہ طورپربکری چوری کے الزام میں پکڑکر اتنے شدید جسمانی ٹارچر سے گزارا کہ اس کی پشت کا رنگ نیلا ہوگیا اور وہ دوران تشدد ہی اپنی جان کی بازی ہارگیا۔ یہ معمول کے واقعات ہیں۔ یہ بربریت کا معمول ہے جو اس ملک کے کروڑوں عام باسیوں پر مسلط ہے۔
’’آزادی‘‘ کے 72 سالوں میں یہاں کے سرکاری اداروں نے سچ کو دبانے اور جھوٹ کو حقیقت بنا کے دکھانے میں ہی مہارت اور خودکفالت حاصل کی ہے۔ بنگال میں قتل عام کے د ل سوز واقعات اور نتائج سے سبق حاصل کرنے کی بجائے اس کے حقائق کو سرکاری طورپر مسخ کرکے پیش کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ آج بھی یہ عمل ملک کے طول و عرض میں جاری ہے۔ بلوچستان، پختونخواہ اور فاٹا کے علاقوں میں متاثرین کے پسماندگان اورمقامی حلقوں کی آہ و بکا کو مین سٹریم پریس تک پہنچنے یا چھپنے سے روکا جاتا ہے۔ ایسے پے درپے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ ریاست اپنے حساس اداروں کے بارے حد سے زیادہ حساس ہے۔ مثلاً کراچی کے ایک پارک میں ایک غیر مسلح نوجوان سرفراز کو اس وقت گولی مارکرہلاک ہونے کیلئے چھوڑ دیا گیا تھا جب وہ ہاتھ باندھ کر اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ بعد میں بہت شور مچا۔ انکواریاں ہوئیں۔ ملوث اہلکاروں کو سزائیں بھی سنائی گئیں جنہیں بعد ازاں معاف کر دیا گیا۔ تازہ مثال راؤ انوار ہے جو چار سو لوگوں کے ماورائے عدالت قتل کے بعد بھی دندناتا پھرتا ہے۔ ایسے واقعات کی آگ سے اٹھنے والا دھواں سچ، حقائق اور قاتلوں کو چھپانے کا کام کرتاآ رہا ہے۔ یہ ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے جس کے ادارے سرمائے کی طرح ہی بے رحم اور بے حس ہیں۔
پنجاب میں جعلی پولیس مقابلوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔ ان ’’مقابلوں‘‘ کو پنجاب میں صبر شکر کے ساتھ واقعی پولیس مقابلہ سمجھ کر قبول کرلیا جاتا رہا ہے۔ سندھ خاص طور پر کراچی میں ماورائے عدالت قتل عام کا شکار ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جاتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کی پولیس ذوالفقارچیمہ، پیر محمد شاہ، چوہدر ی محمد اسلم، راؤ انوار، سہیل ظفر چٹھہ جیسے پیشہ ورقاتلوں سے بھری ہوئی ہے۔ جنہوں نے بلامبالغہ ہزاروں ’’پولیس مقابلوں‘‘ میں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا ہے۔ یا پھر یہ ماورائے عدالت قتل تھے جن میں یہ لوگ خود ہی مدعی، تفتیشی، جج اور جلاد بن کر انسانوں کو موت کی گھاٹ اتارتے رہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ساہیوال میں قتل عام کے مذکورہ واقعے پر وہی مطالبات ابھر رہے ہیں: ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، قاتلوں کو سرعام پھانسی دی جائے، بچوں کی پرورش کی ذمہ داری حکومت لے، وغیرہ۔ لیکن جو بھی کرلیا جائے کسی طور بھی معصوم بچوں کو اس سانحے سے پہلے والی خانگی زندگی نہیں مل سکتی ہے۔ ویسے تو دکھائی نہیں دے رہا لیکن اگر ذمہ دار ریاستی اہلکاروں کو پکڑکرپھانسی پر بھی چڑھا دیا جائے تب بھی قتل وغارت گری کا یہ باب اِس نظام اور سرکاری سیٹ اَپ میں تو بند ہونے والا نہیں۔ ایک اور گھسا پٹا مطالبہ ’’پولیس ریفارمز‘‘ کا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی قسم کی اصلاحات سے ریاست اور اس کے اداروں کا بنیادی کردار تبدیل ہوسکتاہے؟ اگر ہم صرف برصغیر کے ممالک کی پولیس کا ہی جائزہ لیں تو یہ بات بہت وضاحت سے معلوم ہوتی ہے کہ یہاں پولیس کی تشکیل کے مقاصد انگریز راج کے خلاف اٹھنے والی ہرممکنہ عوامی شورش، مزاحمت، بغاوت یا سیاسی مخالفت کی سرکوبی تھی۔ نوآبادیاتی مقاصد کے تحت ہندوستانی پولیس کی تربیت ہی اس انداز میں کی گئی کہ وہ عام شہریوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ان کی تحقیر و تذلیل کرے۔ برصغیر میں باقاعدہ پولیس کے ابتدائی ڈھانچوں کی تشکیل ’لارڈ کارنوالس‘ نے کی تھی جوکہ ہندوستان میں بیوروکریسی کے ڈھانچے اور فوج کی تعمیر کا بھی خالق تھا۔ اپنی تخلیق کے چند ہی سالوں کے اندر انگریز کی تخلیق کردہ پولیس ظلم و زیادتی، ناانصافی، رشوت ستانی اوربربریت میں ان اہداف کو کہیں پیچھے چھوڑ آئی جو اس کے لئے طے کیے گئے تھے۔ انگریز خود پولیس کی عوام دشمنی پر حیران و پریشان تھے۔ 1813ء میں برطانوی پارلیمان کی ایک کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’ہندوستانی پولیس کا عوام کے ساتھ سلوک انتہائی غیر انسانی اور بے رحمانہ ہے۔‘‘ مزید یہ کہ ہندوستانی پولیس امن پسند شہریوں سے بھی وہی سلوک کرتی ہے جو پیشہ ور ڈاکوؤں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ 1832ء میں گورنرجنرل ’سر ولیم بینٹنک ‘ہندوستانی پولیس کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’پولیس عوام کی حفاظت کے بنیادی فرض سے کہیں دور نظر آتی ہے۔ عوام میں یہ بہت بدنام ہے۔ اس کی نیک نامی(اصلاحات) کیلئے اٹھائے گئے اقدامات بے اثر ثابت ہورہے ہیں۔ یوں کہیے کہ بھیڑوں کی رکھوالی والا چرواہا‘ بھیڑیوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہو رہا ہے۔‘‘ یہ اِس پولیس کے ادارے کا آغاز تھا۔ اس کے بعد کتنے سیاسی و سماجی طوفان آکر گزرگئے۔ ملک کا بٹوارہ ہوگیا جس کو کچھ صاحبان ’آزادی‘ کی تعریف سے بھی مزین کرتے ہیں۔ کچھ بدلاؤ بھی آیا مگر بہت کچھ پہلے سے بھی بدتر ہوگیا۔ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عوام کی طرف رویہ وہی رہا جو انگریز راج میں تھا۔ یہ تو تھا اس معاملے کا نوآبادیاتی پہلو۔ لیکن ساہیوال واقعے پرایک ایسا موقف بھی سوشل میڈیا پر نظر آرہا ہے کہ ’’ ایسے واقعات تو دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں۔ ‘‘ کچھ لوگوں نے ایک حکومتی ذمہ دار کے اس بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے جو غم وغصے میں عین فطری تھا۔ مگر غورسے دیکھا جائے تو یہ بالکل درست بیان ہے۔ دنیابھر کی سرمایہ دارانہ ریاستوں اور ریاستی اداروں کا بنیادی کردار ایک جیساہی ہے۔ یعنی وہ سماج سے بالاتر ہیں اور سماج کو اپنی دانست کے مطابق ’’نظم ونسق‘‘ میں رکھنے کیلئے ’’ضروری کاروائیاں‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ساتھ ہی حاکمیت کے دوسرے حصہ دار ان خونی کاروائیوں کی ’’مذمت‘‘ کرتے ہوئے انہیں قانون شکنی سے تعبیر کرنے کی ڈرامہ بازی بھی کرتے ہیں۔ ایک سرمایہ دارانہ ریاست اپنی حاکمیت والے سماج سے بالاترہوتی ہے اوراس کے مسلح ادارے نہ صرف اس کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ طبقاتی ریاست کے نصب العین کے مطابق طبقاتی تفریق کی گہری لکیر کو برقرار رکھنے کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان میں بھی دنیا بھر والا طبقاتی نظام موجود ہے اور اسے قائم رکھنے کے نگہبان ریاستی ادارے بھی۔ یہ ادارے یااوزار اپنا حقیقی کردار ہی ادا کر رہے ہیں جو نظام کے بحران کے ساتھ زیادہ جارحانہ اور جابرانہ ہو گیا ہے۔ جبر بہرحال ان کے فرائض میں شامل ہے جس کی انہیں باقاعدہ تعلیم اور تربیت دی جاتی ہے۔ جیسے کوئی جلاد ذاتی طور پر کتنا ہی نرم خو کیوں نہ ہو‘ اس کے پیشہ ورانہ فرائض میں لوگوں کو قتل کرنا شامل ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جبر کے اداروں کی وردیوں کے رنگ بدلنے یا کوئی دوسری نام نہاد اصلاحات کرنے سے وہ ’’عوام دوست‘‘ نہیں بن سکتے۔ ریاستی مشینری اور عام لوگوں میں فاصلہ اور تفاوت برقرار رکھنا نظام کی ناگزیر ضرورت ہوتی ہے۔ اور نظام کے بنیادی تقاضوں کے برعکس اصلاحات ممکن نہیں ہوتیں۔ جب تک سماج کی تشکیل نو طبقاتی بنیادوں سے ہٹ کے نہیں کی جاتی اور ریاست اکثریت کے مفادات کا نمائندہ ادارہ نہیں بنتی یہ اقلیت کے ہاتھوں میں اکثریت پر جبر کا اوزار ہی رہے گی۔ ساہیوال سانحے جیسے واقعات پیش آتے رہیں گے کیونکہ یہ بڑے پیمانے پہ جبر کے ناگزیر مضمرات ہیں جنہیں مہذب زبان میں ’’کولیٹرل ڈیمج‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ایک گلے سڑے نظام میں اصلاحات کا نعرہ سراسر دھوکہ دہی پر مبنی ہے یا پھر حقائق کو ماننے سے انکار اور خود فریبی ہے۔ جب تک یہ جبر و استحصال کا نظام موجودہے اس کے اداروں کی سفاکی بھی جاری رہے گی۔