نئی تحریکیں، نئے طوفان
یہ تحریکیں مختلف خطوں میں مختلف فوری ایشوز اور مختلف طرزوں پرابھری ہیں۔ لیکن بنیادی وجہ جبر اور استحصال کا یہ نظام ہے جو پوری دنیا میں عوام کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا رہا ہے۔
یہ تحریکیں مختلف خطوں میں مختلف فوری ایشوز اور مختلف طرزوں پرابھری ہیں۔ لیکن بنیادی وجہ جبر اور استحصال کا یہ نظام ہے جو پوری دنیا میں عوام کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا رہا ہے۔
بظاہر یہ تحریک ایک قوم پرست تحریک نظر آتی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس میں جن مسائل کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے وہ تمام غریب طبقے کے مسائل ہیں۔
کبھی دھونس، ریاستی جبر اور بلیک میلنگ کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جائے گی تو کبھی لالچ اور ترغیب کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔
بھٹو کی زندگی اور موت کا سبق یہ ہے معروضی صورتحال کے ساتھ افراد بھی بدلتے ہیں اور طبقاتی جدوجہد کی حرارت میں ریڈیکل بھی ہو جاتے ہیں۔
حالیہ احتجاجی تحریک کی مزید اہمیت اس حوالے سے بنتی ہے کہ اس میں پشتونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں کے عام لوگ بالخصوص نوجوان بھی شریک ہوئے ہیں۔
ایم کیو ایم کا حالیہ تنازعہ یوں تو کامران ٹیسوری کے گرد گھومتا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا دکھایا جا رہا ہے۔
عوام کی بجائے عالمی اور مقامی مقدر حلقوں کوطاقت کے نئے ’سرچشمے‘ سمجھ لینے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا زوال تیز تر ہے۔
ماضی کی ریاست اور اس کے اداروں کے نام نہاد تقدس کا پردہ چاک ہو کر اصلی اور گھناؤنا روپ روز بروز آشکار ہو رہا ہے۔
اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کے باوجود بھی تھرپارکر کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔
درمیانے طبقے کا پس منظر رکھنے والے نودولتی مہاجر رہنما خود کو ریاست کی حاکمیت کے لئے ناگزیر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے۔
جس سوچ نے اس وحشت اور درندگی کو جنم دیا ہے اسکی بنیادوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسے قبائل جن میں نسلوں سے دشمنیاں بھی چل رہی تھیں ایک دوسرے کی قتل وغارت کی تاریخ پائی جاتی ہیں ان کی نئی نسل کو نقیب اللہ کے اس بہیمانہ قتل نے ایک یکجہتی میں پرو دیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بالخصوص ضیاالحق کے دور سے جمعیت کو ریاست اور انتظامیہ کے کچھ حصوں کی پشت پناہی ہمیشہ حاصل رہی ہے۔
ایک متروک نظام کے نمائندے کبھی بھی ترقی پسند اور سائنسی فکر کے مالک نہیں ہو سکتے۔
سعودی عرب کی یاترا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نوا ز شریف کو مقتدر اداروں سے مصالحت کی ضرورت پڑ گئی ہے۔