محرومی کی تضحیک
پاکستان میں سینکڑوں ایسے افراد اور لیڈر ہیں جن کا تعلق سماج کے نچلے حصوں سے تھا جو اب بڑے بڑے سیاستدان اور نودولتیے بن کر ارب پتی ہوگئے ہیں۔
پاکستان میں سینکڑوں ایسے افراد اور لیڈر ہیں جن کا تعلق سماج کے نچلے حصوں سے تھا جو اب بڑے بڑے سیاستدان اور نودولتیے بن کر ارب پتی ہوگئے ہیں۔
تحریک انصاف کی نامرادی کا آغاز برسراقتدار آنے سے پہلے ہی ہو چکا ہے۔
جو امیدیں عمران خان سے وابستہ کی گئی ہیں اور جو خواب اس نے دکھائے ہیں ان کا بہت جلد ٹوٹنا ناگزیر ہے۔
قارئین کی بھرپور فرمائش پر ہم کچھ عرصہ قبل ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘ (AMR) کے لئے اُن کی ایک خصوصی تحریر کا اردو ترجمہ شائع کر رہے ہیں۔
اس معاشرے میں عزت اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس پیسہ ہو۔
نواز شریف کی یہ مزاحمت اس خلا کی وجہ سے اہمیت اختیار کرگئی ہے جو عوام میں کسی بڑی تحریک کی عدم موجودگی میں پیدا ہوا ہے۔
کم و بیش 90 فیصد آبادی کے حقیقی ایشوز اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو نظر انداز کرکے یہاں نہ تو کوئی جمہوریت چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم آمریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔
آج کی پیپلز پارٹی قیادت اپنے مذموم مقاصد کے لئے دولت و اقتدار کے لالچ میں ضیاالحق کے ہاتھوں بھٹو کے عدالتی قتل کو ’’قانونی‘‘ تسلیم کر رہی ہے۔
لیاری کو کربلا جیسی پیاس سے دوچار کرنے والے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی کوئی آواز تو بلند ہونی تھی۔ اتوار کو بس یہی ہوا۔
جس نظام اور جس اقتدار میں عوام کی کوئی نمائندگی ہو نہ ہی عام لوگوں کو اس سے کوئی امیدیں باقی رہیں وہ کتنا مستحکم ہو سکتا ہے اور کب تک چل سکتا ہے؟
کسی صوبے یا انتظامی یونٹ کے وسائل وہاں کے تمام باسیوں کی فلاح پر خرچ ہوں تب ہی کسی بہتری کا سوال پیدا ہو سکتا ہے۔
لائن آف کنٹرول کے اُس پار فوجی جبر پر بات کرنے والے کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور اگر اِس طرف اپنے حقوق مانگے جائیں تو انہیں کفریہ کلمات گردانا جاتا ہے۔
آصف زرداری نے 4 مئی کو لاہور میں بیان دیا ہے کہ پیپلز پارٹی ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت تحریکِ انصاف سے بھی اتحاد کرنے کو تیار ہے۔
تحریک کی پختونخواہ میں بنیادوں سے قطع نظر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کی حمایت بڑھ رہی ہے۔
مشال خان نے جن مسائل کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی وہ اِس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے ناگزیر مضمرات تھے۔