جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان: قومی آزادی طبقاتی جدوجہد کی متقاضی!
منقسم ریاست کی تینوں اکائیوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے سات دہائیوں کے جبر کیخلاف متعدد تحریکیں چلائیں ہیں۔
منقسم ریاست کی تینوں اکائیوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے سات دہائیوں کے جبر کیخلاف متعدد تحریکیں چلائیں ہیں۔
درمیانے طبقے کا پس منظر رکھنے والے نودولتی مہاجر رہنما خود کو ریاست کی حاکمیت کے لئے ناگزیر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے۔
جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری، برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسطرح سے بہتر ہو رہی ہے۔
استحصال اور جبر کرنے والوں کی رنگت اور قومیت بدلنے سے اس نظام کی اذیتیں کم نہیں ہوتیں۔
جہاں ایک طرف قومی محرومی اور جبر کے خلاف ایک سرکشی چل رہی ہے تو دوسری طرف ریاست نے اس سرکشی کو کچلنے کے لیے پورے بلوچستان کو ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
یہ انتفادۂ کشمیر کانفرنس کشمیر کی جدوجہد آزادی کو یہ پیغام دے رہی تھی کہ مہنگی تعلیم، غربت اور بیروزگاری سے بدحال نوجوانوں کو پورے برصغیر میں اس نظام کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں 70 سال بعد بھی ایک جدید قومی ریاست اور یکجا ’’پاکستانیت‘‘ پر مبنی سماجی و اقتصادی اور تاریخی اعتبار سے ایک قوت تشکیل نہیں پاسکی۔
گزشتہ ستر برسوں میں کشمیر کی آزادی کی تحریک سے یہی سبق ملتا ہے کہ اس جدوجہد کو انقلابی پیمانے پر طبقاتی جڑت کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
طلبا کے ساتھ پہلی مرتبہ ہزاروں کی تعداد میں طالبات بھی احتجاج میں شریک ہیں اور بھارتی قابض افواج کے مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اگر حکمرانوں کے مطابق پاکستان ایک ’آزاد‘ اور’خودمختیار‘ اوراب ’جمہوری‘ ملک ہے تو پھر اس کے ہرشہری کو اس کے کسی بھی خطے میں جانے، رہنے اورکام کرنے کا پوراحق حاصل ہے۔
علیحدگی پسند اور دوسری مقامی قیادتوں کو اب ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس میں ایسا لگتا ہے کہ بجائے نوجوان اور عوام ان کے نقش قدم پر چلیں، تحریک ان کو آگے کی جانب دھکیل رہی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے رجعتی میڈیا کی جانب سے تحریک پر ایک مذہبی اور متعصبانہ پردہ ڈالنے کی وارداتوں کے باوجود یہ تحریک آج بھی کسی مذہبی تعصب کی بجائے طبقاتی بنیادوں پر استوار ہے۔
کسی بھی تحریک کی حمایت میں مودی جیسے درندہ صفت حکمران کی لفاظی اسے مجروح اور بدنام ہی کر سکتی ہے۔ یہ لہو میں زہر فشانی کے مترادف ہے۔
فوجی آپریشنوں کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے میں ناکامی ہوئی ہے اور ریاستی جبر کا سب سے زیادہ شکار عام لوگ ہی ہو رہے ہیں۔
نام نہادآزاد کشمیر کو آج جن بنیادی مسائل کا سامنا ہے ان کا حل اس نظام کے اندر ممکن نہیں۔