بربریت کا تسلسل!

| تحریر: لال خان |

کوئٹہ میں 08 اگست کو دہشت گردی کا المناک واقعہ بلوچستان میں جاری کشت و خون اور ریاستی و غیر ریاستی قتل و غارت گری کو کربناک انداز میں ایک بار پھر سامنے لے آیا ہے۔ پاکستانی طالبان کے ایک دھڑے اور داعش، دونوں نے اس خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں کیا گیا اور جس میں وکلا کی بڑی تعداد سمیت ستر سے زائد بے گناہ لوگوں کو لقمہ اجل بنا دیا گیا۔ اس سے کہیں زیادہ لوگ زخمی ہوئے جن میں بیشتر کی حالت نازک ہے۔ یہ وکلا اس سے قبل ٹارگٹ کلنگ میں قتل ہو جانے والے اپنے ایک ساتھی کی میت وصول کرنے کے لئے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں اکٹھے ہوئے تھے۔

Quetta suicide attack dozens of lawyers (7)
ہلاک ہونے والوں میں اکثریت وکلا کی تھی۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، ’’اس گروہ کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ایک ای میل میں کہا کہ تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس طرح کے مزید حملوں کی دھمکی بھی دی۔ بہت جلد اس واقعے کی ویڈیو رپورٹ بھی جاری کی جائے گی‘‘۔ داعش نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اپنی ویب سائٹ اعماق میں انہوں نے کہا، ’’داعش کے ایک شہید نے وزارت انصاف کے ملازمین اور پاکستانی پولیس کے اہلکاروں کے ایک مجمع میں خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا‘‘۔
لیکن پاکستانی حکومت اور ریاست اور کارپوریٹ میڈیا کے بڑے حصے انگلیاں کسی اور طرف اٹھا رہے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، ’’اعلیٰ فوجی اور سول قیادت کو یقین ہے کہ سول ہسپتال پر یہ حملہ ’ملک دشمن عناصر‘ کی کاروائی ہے تاکہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام کرسکیں‘‘۔ وزیراعظم نے کہا، ’’بلاشبہ پاکستان کے دشمن پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج اقتصادی راہداری کے منصوبے کو لاحق خطرات کو ختم کرنے کے لیے نہایت شاندار کام کر رہے تھی‘‘۔ اسی طرح وزیراعلیٰ بلوچستان نے فوراً اس حملے کا الزام ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’را‘ پر لگادیا۔ واضح طور پر ایسا لگ رہا تھا جیسے دانستہ طور پر مذہبی بنیادپرستی کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم پاکستان کے سب سے معتبر بورژوا اخبار نے اپنے 09 اگست کے اداریے میں لکھا، ’’بلوچستان میں ہونے والے تشدد کے کئی پہلو ہیں اورعلیحدگی پسندوں، مذہبی انتہاپسندوں وغیرہ سمیت مختلف گروہ یہ وارداتیں کرتے ہیں لیکن طریقہ کار سے لگتا ہے کہ یہ واردات مذہبی انتہاپسندوں کی کارستانی ہے‘‘۔ اسی طرح اس حکمران سیاست کے کئی حلقوں کی جانب سے بھی ’بیرونی ہاتھ‘ کے سرکاری موقف پر کڑی نکتہ چینی دیکھنے میں آئی ہے کہ جس سے پتا چلتا ہے کہ حکمران طبقات کے اندر ریاست کی مسلسل ناکامی پر تشویش موجود ہے۔ مثلاً سابق چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما فارق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ’’را پر الزم دینے سے کچھ نہیں ہو گا۔ سانحہ کوئٹہ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی ہے‘‘۔ ایک انتہائی غیر متوقع بیان ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کے سربراہ شیرانی نے دیا کہ ’’دشمن اپنے ہی گھر میں ہیں، بلوچستان میں کوئی را یا موساد نہیں ہمارے اپنے ہی بنائے ہوئے لوگ ہیں، قوم سے جھوٹ نہ بولا جائے، مسلح تنظیمیں کس کی ہیں بتایا جائے…‘‘۔ اس ریاست اور سیاست کے اپنے نمائندگان کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر بار کی جانے والی ’بیرونی ہاتھ‘ کی لفاظی کس حد تک کھوکھلی اور بے معنی ہو چکی ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی ایجنسیاں ان دو ملکوں میں ہونے والی دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان کے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اس خفیہ جنگ کے بارے میں خود اقرار کیا تھا۔ دی گارڈین کے ساتھ ایک انٹرویو میں مشرف نے کہا تھا، ’’پاکستان اور ہندوستان کی اپنی اپنی پراکسیاں ہیں جو ایک غیر صحتمند عمل ہے۔ میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں۔ یہ افغانستان، پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسے بند ہونا چاہیے۔ ہندوستان کی ’را‘ اور پاکستان کی آئی ایس آئی آزادی کے وقت سے ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے‘‘۔ (دی گارڈین، 13 فروری 2015ء)
تاہم بلوچستان کے انتشار میں صرف بھارتی ریاست ہی ملوث نہیں ہے۔ جب سے بلوچستان میں قیمتی معدنیات اور ہائیڈروکاربن کے ذخائر کی بڑی مقدار کے سروے سامنے ہیں، اس وقت سے ملکی، علاقائی اور عالمی سامراجی کارپوریٹ گدھ بلوچستان پر ٹوٹ پڑے ہیں تاکہ ان وسائل کو لوٹا جا سکے۔ اسی طرح اس خطے کی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر بھی سامراجی طاقتوں کے مفادات اور آپسی لڑائیاں یہاں موجود ہیں۔ بلوچستان کی اہم جغرافیائی لوکیشن اور بیش بہا وسائل ہی یہاں کے باسیوں کے لئے عذاب بن کے رہ گئے ہیں۔ بلوچستان میں قومی محرومی کے خلاف اٹھنے والی مسلح تحریکوں کی طویل تاریخ ہے۔ تاہم قومی آزادی اور خودمختیاری کی تحریک میں سامراجی قوتوں کی عیارانہ مداخلت نے اسے کمزور اور تقسیم کیا ہے۔ یہ سامراجی ریاستیں ایسی تحریکوں کی قیادت کو اپنے جھانسے میں لے کر تحریک کو ریاست اور دوسرے فریقوں سے سودا بازی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
بلوچستان کی پرانتشار صورت حال میں مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کا مظہر ایک نسبتاً نئی ’تخلیق‘ ہے۔ ایک طرف اسے قومی آزادی کی تحریک کو مسخ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور دوسری طرف یہ بنیاد پرست گروہ مختلف ملکی اور سامراجی قوتوں کی پراکسیوں کے طور پر سرگرم ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں بلوچستان میں ہزارہ شیعوں کا وحشیانہ قتل عام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ایران اور سعودی عرب جیسی رجعتی ریاستیں اپنی بالادستی کے لیے صرف اپنے وظیفہ خوار ملاؤں پر انحصار نہیں کر سکتیں بلکہ انہیں ریاست اور سیاست کے اندر سے بھی دھڑوں کی ضرورت رہتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے وابستہ سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے جدید اسلامی بنیادپرستی کو نہ صرف اس خطے میں بلکہ پوری دنیا میں امریکی سامراج نے ہی متعارف کروایا تھا۔ افغانستان کے ثور انقلاب کے خلاف یہ ’مجاہدین‘ امریکہ اور سعودی عرب کی مالی، عسکری اور سیاسی حمایت سے پاکستانی حکمرانوں نے بڑی تعداد میں تیار اور برآمد کئے۔ بعد ازاں جب امریکی صد ر کارٹر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ’زبگانیو برزنسکی‘ سے ایک فرانسیسی اخبار نے پوچھا کہ امریکی سامراج نے ان بنیاد پرستوں کو کیوں تخلیق کیا تو اس کا جواب تھا: ’’ہمارے لیے زیادہ اہم یہ تھا کہ سوویت سلطنت کو شکست دیں نہ کہ چند انتہاپسند مسلمانوں کے بارے میں فکر مند ہوجائیں‘‘۔ یہ ’’چند انتہا پسند مسلمان‘‘ تیار کرنے کے نتائج دنیا بھر میں اب نظر آ رہے ہیں۔ مذہبی جنون کی اس وبا نے نہ افغانستان کو تاراج کیا ہے بلکہ پورے خطے کو آگ اور خون میں غرق کر رہی ہے، مشرق وسطیٰ میں یہ کئی ممالک کو روندتے ہوئے اب یورپ تک پہنچ چکی ہے۔
موجودہ وقت میں بلوچستان میں چین کے سامراجی مفادات سب سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے گوادر کی بندرگاہ سے لے کر بلوچستان کے سونے اور کاپر کے ذخائر تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ مغربی سامراج، بالخصوص امریکی، پاکستان اور چین کے درمیان ان قربتوں سے خوش نہیں ہیں اور یوں گزشتہ کچھ سالوں سے بلوچستان میں ایک اور پراکسی جنگ پنپ رہی ہے۔
بلوچستان میں ریاستی جبر اپنی بدترین شکل میں موجود ہے۔ پچھلے چند سالوں سے لاتعداد لوگ غائب کیے گئے اور بے شمار سیاسی کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی گئی ہیں جنہوں نے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جو اس وقت ان کے پاس موجود تھا۔ ایک طرف مسلح جدوجہد کی محدودیت ہے جو اکثر اوقات ریاست کو جبر کا جواز ہی فراہم کرتی ہے۔ ساتھ ہی قوم پرست قیادت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ عوام کو تحریک میں لانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ قیادت کی نظریاتی زوال پزیری اور سامراجی اور ریاستی مداخلت کی وجہ سے اس کا تقسیم ہونا ہے۔
آج بلوچستان کی قومی تحریک کی قیادت اس قومی جدوجہد کو پورے پاکستان اور جنوب ایشیا کی طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے سے کتراتی ہے۔ لیکن بلوچستان کے عوام جس وحشت اور محکومی کا شکار ہیں وہ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی۔ محنت کش اور محکوم طبقات اٹھیں گے۔ وہ نہ صرف ملک کے صنعتی علاقوں میں اٹھیں گے بلکہ بلوچستان میں بھی قومی و طبقاتی جبر اور استحصال کے اس نظام کے خلاف تاریخ کے میدان میں اتریں گے۔
فوجی آپریشنوں کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے میں ناکامی ہوئی ہے اور ریاستی جبر کا سب سے زیادہ شکار عام لوگ ہی ہو رہے ہیں۔ آج کوئٹہ کسی زیر محاصرہ شہر کی طرح لگتا ہے جہاں ہر چند میٹر کے فاصلے پر فوجی چیک پوسٹیں ہیں اور لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں۔ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی کم و بیش یہی صورت حال بن رہی ہے۔ اس سب کے باوجود دہشت گرد بے دھڑک اپنی کاروائیاں کرکے چلے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے میں ریاست ناکام ہے کیونکہ کالے دھن پر پلنے والا یہ ناسور معیشت، ریاست اور سیاست کے اندر تک سرائیت کر چکا ہے۔ یوں ۔ محنت کش طبقے کی قیادت میں صرف ایک عوامی تحریک ہی اس ناسور کو کچل سکتی ہے۔

متعلقہ:

کون سا محاذ؟ کس کی جنگ؟

بلوچستان: ظلم رہے اور امن بھی ہو؟