جب نظام متروک ہو جائے!
کم و بیش 90 فیصد آبادی کے حقیقی ایشوز اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو نظر انداز کرکے یہاں نہ تو کوئی جمہوریت چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم آمریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔
کم و بیش 90 فیصد آبادی کے حقیقی ایشوز اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو نظر انداز کرکے یہاں نہ تو کوئی جمہوریت چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم آمریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔
کوئی بھی پارٹی کسی حقیقی سماجی مسئلے اور اقتصادی ایشو کو اپنی کمپئین کے ایجنڈے پر نہیں آنے دے رہی۔ کیونکہ حل کسی کے پاس نہیں ہے۔
ماضی کی ریاست اور اس کے اداروں کے نام نہاد تقدس کا پردہ چاک ہو کر اصلی اور گھناؤنا روپ روز بروز آشکار ہو رہا ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
بجٹ بظاہر تو سال میں ایک دفعہ جون کے مہینے میں پیش ہوتا ہے لیکن اصل میں ہر ماہ نئے ٹیکسوں کی صورت میں پورا سال محنت کشوں اور عوام کی زندگیوں کی تلخیاں بڑھتی رہتی ہیں۔
ڈار صاحب نے اس ملک کی کل معیشت کے صرف 27 فیصد کا بجٹ ہی پیش کیا ہے۔
1968-69ء میں اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ایسی عوامی بغاوت ہوئی تھی جس کا کردار سوشلسٹ تھا۔ اسی برس پاکستان کی تاریخ میں معیشت کی سب سے زیادہ شرح نمو ہوئی تھی۔
حکمرانوں کی ترقی محکوموں کی تنزلی بن جاتی ہے۔ امیر کی دولت غریب کی غربت میں اضافہ کرتی ہے۔
ریاست اور حکمران طبقے کے تقدس اور اتھارٹی کو کئی ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کے ذہنوں اور نفسیات پر مسلط کیا جاتا ہے۔
صحت، تعلیم، پانی، نکاسی آب اور دوسرے سماجی شعبوں کی نجکاری نے عوام کی زندگیوں پر قہر نازل کردیا ہے۔
جو بھی تھوڑا بہت روزگاریہاں پیدا ہوبھی رہا ہے وہ سارا اسی غیر رسمی معیشت سے منسلک ہے۔ ورنہ ریاست کے پاس کوئی ایسی پالیسی موجود ہی نہیں جس سے سماج کو ترقی دی جاسکے۔
طبقہ جلد یا بدیر اس نتیجے پر پہنچے گا کہ مسائل کا حل آسان طریقوں اور راستوں پر نہیں ہے۔
موجودہ بے یقینی کا عالم اس وجہ سے بھی پایا جاتا ہے کہ صرف چند دنوں میں چیف کی تبدیلی سے پیشتر کوئی ایسا دھماکہ، دہشت گردی کی واردات یا پھر کوئی بھاری واقعہ رونما ہوسکتا ہے جو فوجی مداخلت کروانے کا موجب بن سکتا ہے۔
اس منصوبے سے شاید عارضی طور پر ریاست اور نظام کو کچھ آسرا مل جائے لیکن لمبے عرصے میں تضادات شدید تر ہی ہوں گے۔ اس معاشی نظام میں پسے ہوئے عوام کے عذابوں میں کمی ممکن نہیں ہے۔
صرف نواز لیگ ہی نہیں، دولت کی اس مسلط کردہ سیاست کا ہر نمائندہ اس کے آگے بچھا جا رہا تھا۔