جب معیشت ہی ناکام ہو؟
مروجہ سیاست میں اپوزیشن سے لے حکومت تک اس معیشت کو چلانے کے طریقہ کار پر بھی کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔
مروجہ سیاست میں اپوزیشن سے لے حکومت تک اس معیشت کو چلانے کے طریقہ کار پر بھی کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔
ایک معاشی دیوالیہ پن کی کیفیت ہے جسے ٹالنے کے لئے پالیسی سازوں کے پاس آپشن بہت محدود ہیں۔
بحرانوں کے ایسے ادوار میں حکمرانوں کے لیے محنت کشوں پر بوجھ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
ایسی وارداتوں کا مقصد صحت کے شعبے کا پہلے سے قلیل بجٹ مزید کم کرنا‘ نجکاری کی راہ ہموار کرنا اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ کرنا ہے۔
عمران خان نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے بنفس نفیس بیل آؤٹ ’پیکیج‘ کی بھیک مانگی ہے…
یہ واردات نجکاری کے اُس عمل کو آگے بڑھانے کے لئے جاری ہے جو موجودہ حکومت ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑے پیمانے پہ کرنے کے لئے پر تول رہی ہے۔
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
جس طرح تحریک انصاف کی حاکمیت بے نقاب ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ریاست کے حقیقی حکمران خود کتنی گراوٹ اور بحران کا شکار ہیں۔
موصوف نے 1970ء کی دہائی میں بھٹو حکومت کی نیشنلائزیشن کو پاکستان کی تاریخ کا ’’بدترین معاشی جرم‘‘ قرار دیا ہے۔
پاکستانی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کا ایک جائزہ
یہ پچھلی حکومت کی کرپشن کا واویلا ابھی تک کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے اور اسی شور میں ان کے قائدین کرپشن کے نئے ریکارڈ بنا چکے ہونگے۔
نودولتیوں کی اس حکومت کے ماہرین اور جگادری ان وارداتوں کو نئے نئے نام دیں گے۔
ان کارپوریشنوں نے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔
گزشتہ دہائیوں کی تمام تر ترقی کے باوجود آج بھی چین کا شمار دنیا کی بڑی غربت والے پانچ ممالک میں ہوتا ہے۔
جو امیدیں عمران خان سے وابستہ کی گئی ہیں اور جو خواب اس نے دکھائے ہیں ان کا بہت جلد ٹوٹنا ناگزیر ہے۔