اقتدار کی ہوس
اس اقتدار میں آنے کے لئے سفاک اور پتھر دل ہونا لازم ہے۔
اس اقتدار میں آنے کے لئے سفاک اور پتھر دل ہونا لازم ہے۔
پاکستانی سماج کی سرکاری تاریخ حکمران طبقات کی تاریخ ہے۔ 1968-69ء کے ادھورے انقلاب کی تاریخ یہاں کے محنت کشوں کی تاریخ ہے۔
اس بحران کی بڑی وجہ بیرونی طاقتوں بالخصوص بھارت اور چین کی سری لنکا میں مداخلت اور مفادات کی جنگ ہے۔
ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے کسی حکومتی ایما یا اشارے کے بغیر اپنے طور پر ہی خاشقجی کو قتل کر دیا ہے!
بولسنارو جیسے دائیں بازو کے پاپولسٹ کا ابھار بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی ناکامی کا نتیجہ ہی ہے۔
محنت کش طبقات میں شاید ہی کوئی انسان پیسے کی اِس جمہوریت کے بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اپنا ’’نمائندہ‘‘ تصور کرتا ہو گا۔
یہ پچھلی حکومت کی کرپشن کا واویلا ابھی تک کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے اور اسی شور میں ان کے قائدین کرپشن کے نئے ریکارڈ بنا چکے ہونگے۔
جدلیاتی طور پر چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور سستی لیبر والا یہی چین آج مغرب کے سامنے ایک معاشی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔
نریندرا مود ی اب مذہبی منافرتوں کو نئی ہولناک انتہاؤں پر لے جانا چاہتا ہے جس سے وہ ہندو بنیاد پرستی کی وحشت کو ابھار کر 2019ء کا انتخاب جیت سکے۔
اعلیٰ حکام تو نوٹس لے کر، کبھی موقع واردات پر پہنچ کر احکامات صادر کردیتے ہیں لیکن پھر ان احکامات پر عمل درآمد تو سرکاری ڈھانچوں نے کروانا ہوتا ہے۔
نودولتیوں کی اس حکومت کے ماہرین اور جگادری ان وارداتوں کو نئے نئے نام دیں گے۔
اس کھیل کے پیچھے چھپی معاشی بنیادوں کو زیر بحث لایا جانا اور ان کے تدارک کیلئے اقدامات ہی وقت کی ضرورت ہیں۔
ان کارپوریشنوں نے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔
’’یہ مزدور تحریک کی طاقت تھی جس کے نتیجے میں سویڈن کی فلاحی ریاست وجود میں آئی۔‘‘
پاکستان میں سینکڑوں ایسے افراد اور لیڈر ہیں جن کا تعلق سماج کے نچلے حصوں سے تھا جو اب بڑے بڑے سیاستدان اور نودولتیے بن کر ارب پتی ہوگئے ہیں۔