ہزارہ آبادی کا مسلسل قتل عام
اگرچہ اس صدی کے آغاز سے ہی ہزارہ کمیونٹی پر گاہے بگاہے حملے ہوتے رہے ہیں لیکن پچھلے کئی سالوں میں انہیں بڑے قتل عام کا سامنا ہے۔
اگرچہ اس صدی کے آغاز سے ہی ہزارہ کمیونٹی پر گاہے بگاہے حملے ہوتے رہے ہیں لیکن پچھلے کئی سالوں میں انہیں بڑے قتل عام کا سامنا ہے۔
اس نظام میں یہی ہوتا آیا ہے، یہی ہو سکتا ہے اور یہی ہو گا۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہی ہوگا۔
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت ایک باریک رسی پر لڑکھڑاتے اور ڈولتے ہوئے چل رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ 1985ء کی نسبت اختلافات مزید بڑھے ہی ہیں اور تعلقات بگڑے ہیں۔
| تحریر : لال خان | اڑی حملے پر انڈین میڈیا کی جانب سے بھڑکائے گئے ہیجان اور جنگی جنون اورجواب میں اسی انداز میں پاکستانی چینلوں کی جانب سے تنگ نظر حب الوطنی کی جذباتی نعرے بازی عالمی سیاسی حلقوں،میڈیا اور وسیع تر عوام میں متوقع پذیرائی حاصل نہیں […]
مرتضیٰ بھٹو نے حکمران سیاست اور نظام سے دشمنی مول لی تھی۔ مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے والوں کو ایک کہیں زیادہ مسلح اوردیوہیکل حاکمیت کبھی فراموش کرتی ہے نہ کبھی چھوڑا کرتی ہے۔
یونان کا بحران ختم نہیں ہوا بلکہ منظر عام سے غائب کر دیا گیا ہے۔
مذہبی فرقہ واریت ان تھیوکریٹک ریاستوں کے ہاتھ میں ایک ایسا اوزار ہے جسے داخلی اور خارجی جبر میں استعمال کرتی ہیں۔
مودی سرکار کے برے دن آ گئے ہیں۔ کشمیر بھڑک اٹھا ہے اور اسی دوران 18 کروڑ محنت کشوں کی عام ہڑتال نے طبقاتی جدوجہد کا ایک نیا آغاز کر دیا ہے۔
ہزاروں ارب ڈالر اس بربادی میں جھونک دئیے گئے جس نے دنیا میں دہشت گردی اور انتشار کو مزید پروان ہی چڑھایا۔
جوں جوں روز مرہ کی خبروں میں دہشت گردی ایک معمول بننا شروع ہوجاتی ہے اس سے مرتب ہونے والی عوامی نفسیات پر ’شاک‘ اور صدمے کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
مثبت سرگرمیاں معدوم ہو چکی ہیں، تعلیمی اداروں کے اندر جیل خانوں جیسا ماحول ہے، طلبہ سیاست پر پابندی ہے، پارک اور گراؤنڈ قبضہ مافیا کے نشانے پر ہیں۔
چینی معیشت میں گراوٹ کی وجہ سے خام تیل کی طلب میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ اس نے کینیڈین معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔
اصل ہندوستان جو محنت کشوں اور غریب عوام کا ہندوستان ہے، بیدار ہو رہا ہے۔
پیوٹن زیادہ لمبے عرصے تک بیرونی ’’شجاعت‘‘ کی داستانوں اورپراپیگنڈے سے عوام کو مائل نہیں کرسکتا۔