کھوکھلا جنگی جنون

| تحریر : لال خان |

اڑی حملے پر انڈین میڈیا کی جانب سے بھڑکائے گئے ہیجان اور جنگی جنون اورجواب میں اسی انداز میں پاکستانی چینلوں کی جانب سے تنگ نظر حب الوطنی کی جذباتی نعرے بازی عالمی سیاسی حلقوں،میڈیا اور وسیع تر عوام میں متوقع پذیرائی حاصل نہیں کرسکی۔ آج کی عالمی معیشت، سیاست اور سوشل میڈیا کے دور میں برصغیر کے ان دو حریفوں کے جنگی پروپیگنڈے زیادہ تر ان کے میڈیا ہاؤسز تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اس مسئلے کو اتنی تیزی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ تمام تر نئے مسائل اور معاملات کو انتہائی کم وقت میں کنارے لگا دیا گیا۔ لاتعداد سازشی نظریات کی موجودگی میں، جب جھوٹ اور دھوکہ دہی سیاسی اقدار بن چکے ہیں، یہ بات غیر اہم ہوجاتی ہے کہ اڑی حملے کے اصل ذمہ داران کون ہیں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سرکش کشمیری نوجوانوں کی بغاوت نے دہلی کی اسٹیبلشمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ہندوستان کے حکمرانوں کی پریشانی اور مایوسی واضح نظر آتی ہے لیکن کارپوریٹ سرمائے کے معاشی مفادات نے انہیں جکڑ رکھا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ایک اور جنگ کی طرف جانا ہندوستانی ریاست اور نحیف سیاسی سیٹ اپ کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت کے آنے کے بعد اس طرح کی جذباتی نعرے بازی باشعور سیاسی تجزیہ نگاروں کے لیے زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے۔
مودی کی اس ہندتوا حکومت سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ پچھلے کافی لمبے عرصے سے وہ جنگ کی طرف جانے کی بجائے حالت جنگ کی کیفیت پیدا کر رہے ہیں۔ یہی کچھ وہ پچھلے چند دنوں سے کر رہے ہیں۔ پاکستان میں موجود دائیں بازو کے مذہبی اور تنگ نظر وطن پرستوں کا کردار ان سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ تاہم ہندوستان اور پاکستان میں اس طرح کے ادوار میں جب جنگ کی نعرے بازی شروع ہوتی ہے اور میڈیا اور سیاسی اشرافیہ جنگی پالیسی کا راگ الاپنا شروع کرتے ہیں تو بہت سے لبرل اور ’ترقی پسند‘ دانشور بھی اس راہ پر لگ جاتے ہیں جو ان کے نظریاتی دیوالیہ پن اور ’اصولی مؤقف‘ کے ڈھونگ کو بے نقاب کرتا ہے۔
2001ء میں ہندوستان کی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد اس طرح کے ’ممکنہ جنگ‘ کے خطرے کے کئی ادوار آئے جو کچھ عرصے میں زائل ہوگئے۔ فوجیوں کو سرحدوں پر تعینات کیا جا تا ہے اور طبل جنگ بجا ئے جاتے ہیں۔ زمینی، فضائی اور بحری فوج کی مشقیں اور جنگ کی تیاریاں تیز ہوجاتی ہیں جس میں جنگی طیارے شہری علاقوں میں نچلی پروازیں کرتے ہیں اور فوجی نقل و حرکت زیادہ واضح نظر آتی ہے تاکہ عام لوگ زیادہ سے زیادہ خوف زدہ ہو سکیں یا جنگی جنون کا حصہ بنیں۔ اگر کوئی میڈیا کے پروگراموں کو دیکھے تو اسے یقین ہوجا تا ہے کہ رات کسی بھی وقت جنگ ہوسکتی ہے۔
بی بی سی اردو کے مطابق ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی نے جمعرات ایک ملٹری آپریشن روم میں گزارا جہاں اس نے لائن آف کنٹرول پر ہندوستانی فوج کی نقل و حرکت کا معائنہ کیا۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ’’پچھلے دو دنوں میں کئی اعلیٰ سطح کی میٹنگز ہوئی ہیں جس میں نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوال کے ساتھ میٹنگ بھی شامل ہے جس میں لائن آف کنٹرول پر آپریشنل تیاریوں اور فوجی آپشنز کا جائزہ لیا گیا۔ ہندوستان بھاری توپ خانوں کے ذریعے حملوں، سمرچ راکٹ، براہموس سپرسانک کروز میزائل کے ذریعے حملوں اور جنگی طیاروں کے ذریعے دہشت گردی کے کیمپوں پر سرجیکل سٹرائیک کے آپشنز پر غور کررہا ہے۔‘‘
سرحد کے دونوں اطراف ایک جنگی ماحول بنا دیا گیا ہے۔ پاکستانی پریس رپورٹوں کے مطابق، ’’بدھ کو حکام نے فضائی حدود میں پابندیاں عائد کردیں اور گلگت بلتستان جانے والی تمام پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ پشاور اور لاہور میں موٹر وے کے بعض حصوں کو بند کر دیا گیا ہے تاکہ پاک فضائیہ کے جنگی طیارے اپنی مشقیں کرسکیں۔ جمعرات کو بھی پاک فضائیہ نے لاہور پشاور موٹروے کو’معمول کی مشقوں کے لیے‘ بند کر دیا۔‘‘ پاکستان کے برائے نام وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ میں لکھا، ’’الحمداللہ، ہماری فضاؤں کے محافظ ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہماری موٹروے ہمارا رن وے ہے۔‘‘
تاہم برصغیر کے رجعتی حکمرانوں کی جانب سے مخاصمت کے ان متواتر ادوار سے یہ بد قسمت معاشرے جنگی جنون کی زد میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طاقتوں کے موجودہ توازن اور پاکستان اور ہندوستان کے بیمار سرمایہ دارانہ معیشتوں کی موجودہ کیفیت میں حکمرانوں کے سنجیدہ پالیسی ساز کسی طرح کی بڑی جنگ میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سامراجی اور کارپوریٹ سرمایہ کاری بھی کسی طرح کے بڑے پیمانے کی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برصغیر کے حکمران طبقات کو جنگ کے نتیجے میں عوام کی وسیع پیمانے پر ہونے والی بربادی اور بدحالی کی کوئی فکر ہے جو پہلے سے ہی سرمایہ داری کے معاشی قتل عام کا شکار ہیں جس کے زخم جنگ جیسے ہی جان لیوا ہیں۔
یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں ممالک ایک پائیدار امن بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ عسکری اشرافیہ اور سامراجی فوجی صنعتی کمپلیکس کے مفادات بھی ہیں جو ان ریاستوں کو اسلحہ فروخت کرتا ہے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ محرومی اور غربت پلتی ہے۔ برصغیر میں پائیدار امن کے راستے میں دوسری بڑی رکاوٹ جابر ریاست کو قائم رکھنے کے لیے تخلیق کردہ بیرونی اور مصنوعی خطرات ہیں تاکہ اس کے ذریعے ریاست کی ’سالمیت‘ اور ’خودمختاری‘ کے نام پر محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلا جا سکے۔
وقت کے ساتھ ساتھ حکمران طبقات کے ترقی پسند اور لبرل دھڑے زوال پذیر ہوچکے ہیں کیونکہ ان کے سماجی اور معاشی ترقی کی حامل جدید صنعتی معاشرے تعمیر کرنے کے خواب چکنا چور ہوچکے ہیں۔ سامراجی پشت پناہی پر مبنی ان کی سرمایہ داری کو یہ موقع ہی نہیں ملا کہ وہ یہ فرائض پوری کرسکے۔ اس سے بیگانہ ترسی (زینوفوبیا) اور مذہبی بنیادپرستی کے رجحانات نے جنم لیا۔ ہندوستان جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے اس پر ایک تنگ نظر ہندوبنیادپرستی کی حکومت براجمان ہے جس میں واضح طور پر نیوفاشسٹ عناصر بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔
پاکستان میں روایتی عوامی پارٹیوں کی قیادت کی غداریوں کی وجہ سے اسلامی بنیادپرستی کو ابھرنے کا موقع ملا ہے اور جمود کی کیفیت میں سماج پر نیم رجعت حاوی ہے۔ سیاسی طور پر اور انتخابی میدان میں یہ رجحانات ہندوستان کی نسبت کافی کمزور ہیں۔ تاہم یہ اسلامی اور ہندوبنیادپرست رجحانات ایک دوسرے پر پلتے ہیں اور ایک انقلابی قیادت سے محروم محنت کش طبقے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں۔ اس جنگی ماحول میں دونوں ممالک کے ریاستی اداروں کے اپنے مفادات ہیں۔ ان غریب ترین ممالک کے فوجی اخراجات سب سے زیادہ ہیں۔ گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی محرومی سے سماجی تحرک جنم لے رہا ہے جو اپنا اظہار قومی محرومی کے خلاف جدوجہد اور طبقاتی جدوجہد میں کر رہا ہے۔ متحارب سامراجی مفادات کی بڑھتی ہوئی مداخلت کی کیفیت میں یہ ریاستیں ان بنیادپرست پراکسیوں کو تخلیق کرتی ہیں جو ان کے وحشیانہ کام سرانجام دیتی ہیں۔ لیکن یہ ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔ یہ پراکسیاں بعض اوقات اپنے بنانے والوں پر بھی اثرانداز ہوسکتی ہیں اور اگر یہ جنون ریاستی طاقت کے سب سے بالا اداروں میں سرایت کرتا ہے تو ان دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کے نتائج سے یہ پورا خطہ مکمل تباہی کر طرف جا سکتا ہے۔
مختلف حکومتوں اور نام نہاد سول سوسائٹی کی جانب سے امن کے لیے ان گنت مہمات چلائی گئی ہیں جو ناکام اور نامراد ہیں۔ ان سماجوں پر براجمان سماجی و معاشی نظام کی بنیادوں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ یہاں پائیدار امن قائم کیا جاسکے۔ اس زوال پذیر سرمایہ داری کی موجودگی میں اس خطے کے ڈیڑھ اَرب انسانوں کا مستقبل امن، استحکام اور خوشحالی سے عاری ہے۔