قومیتی تضاد ابھارنے کی مکروہ کوشش
اگر حکمرانوں کے مطابق پاکستان ایک ’آزاد‘ اور’خودمختیار‘ اوراب ’جمہوری‘ ملک ہے تو پھر اس کے ہرشہری کو اس کے کسی بھی خطے میں جانے، رہنے اورکام کرنے کا پوراحق حاصل ہے۔
اگر حکمرانوں کے مطابق پاکستان ایک ’آزاد‘ اور’خودمختیار‘ اوراب ’جمہوری‘ ملک ہے تو پھر اس کے ہرشہری کو اس کے کسی بھی خطے میں جانے، رہنے اورکام کرنے کا پوراحق حاصل ہے۔
1968-69ء میں اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ایسی عوامی بغاوت ہوئی تھی جس کا کردار سوشلسٹ تھا۔ اسی برس پاکستان کی تاریخ میں معیشت کی سب سے زیادہ شرح نمو ہوئی تھی۔
کراچی میں 100 سے زائد تھانے ہیں جن میں سے 52 تھانوں کے ریکارڈ میں جرائم بڑھے ہیں۔
سلام آباد میں بیٹھ کر داعش جیسی تنظیموں کی سر عام حمایت پر ریاست کا معمولی سا بھی رد عمل سامنے نہیں آتا۔ بلکہ وزرا اور ریاستی حکام ان کے ہولناک بیانات اور عام شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کی توجیحات گھڑتے نظر آتے ہیں۔
افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اور حکمت یار کے بڑی حد تک خاموش گروپ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کی رو سے حکمت یار کو ماضی کے تمام حملوں، دہشت گردی اور قتل عام سے عام معافی دیتے ہوئے اس کے مکمل ’’سیاسی حقوق‘‘ بحال کر دیے گئے ہیں۔
حکمرانوں کی ترقی محکوموں کی تنزلی بن جاتی ہے۔ امیر کی دولت غریب کی غربت میں اضافہ کرتی ہے۔
ریاست اور حکمران طبقے کے تقدس اور اتھارٹی کو کئی ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کے ذہنوں اور نفسیات پر مسلط کیا جاتا ہے۔
ہر دل کمار ان تمام پہچانوں کے علاوہ ایک مخلص اور سچا انسان بھی تھا۔ وہ واقعی ہردل تھا۔
ہندوستان اور پاکستان کا شمار فوجی ساز و سامان پر سب سے زیادہ اور تعلیم و علاج جیسی بنیادی سہولیات پر کم ترین ریاستی اخراجات کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
دباؤ پہلے ہی سامراجی ریاست کے ایوانوں میں شدید دباؤ اور تناؤ پیدا کررہا ہے۔ یہ ممکن ہے ٹرمپ کو برطرف کردیا جائے۔ لیکن چہروں کے بدلنے سے نظام تو نہیں بدلتے!
ڈونلڈ ٹرمپ جو اندھا دھند جارحانہ پالیسیوں اور فیصلوں کے اعلانات کرتا جارہا ہے وہ امریکی ریاست کے اپنے خارجی اور سفارتی مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ٹرمپ ان کو مسلسل جاری رکھ سکے۔
افغان مہاجرین کا مسئلہ ضیاالحق کے جرائم کی طویل فہرست میں سے ایک کڑی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں پرولتاریہ بحیثیت مجموعی ایک پسماندہ سماج میں جدید ترین فرائض کے حامل انقلاب کا امین اور علمبردار ہے۔
عورت ہمیشہ سے سماجی طور پر غلام نہیں تھی مگر کچھ مخصوص حالات کی وجہ سے جب اس سے معاشی خود مختیاری چھین لی گئی اور ان کو سماجی طور پر غلام کیا گیا۔
ٹرمپ کی صدارت شاید امریکہ کی تاریخ کا سب سے پر انتشار اقتدار ہوگا، جس کا آغاز ہمیں حلف برداری کی تقریب کے دوران مختلف جگہوں پر مظاہروں اور توڑ پھوڑ کی شکل میں نظر آیا۔