مردم شماری: اعداد بدلنے سے حالات نہیں بدلتے!
تاثر یہ دینے کی کوشش کی جارہی کہ جیسے افراد کی گنتی مکمل ہوتے ہی ملک کے تمام مسائل پلک جھپکتے ختم ہوجائیں گے۔
تاثر یہ دینے کی کوشش کی جارہی کہ جیسے افراد کی گنتی مکمل ہوتے ہی ملک کے تمام مسائل پلک جھپکتے ختم ہوجائیں گے۔
یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ترین خطوں میں یہ بحران اور خلفشار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سرمایہ داری اپنی ترقی یافتہ شکلوں میں بھی استحکام اور معاشی نمو برقرار رکھنے سے قاصر ہے۔
روس اور امریکہ سمیت اس تنازعے میں شامل تمام حصہ دار بخوبی آگاہ ہیں کہ صورتحال ان کے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
2011ء میں ماروتی سوزوکی کا مانیسر اسمبلی پلانٹ کم اجرتوں، کام کے دوران جبر، ٹھیکیداری اور عارضی ملازمت کے خلاف لڑاکا جدوجہد کا گڑھ بننا شروع ہوا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں برصغیر میں بائیں بازو کی سیاست کا کلیدی کردار رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین کے اپنے کئے گئے تجزے کے علاوہ کسی اور تناظر میں 1977ء کی فوجی بغاوت یا پھر بھٹو کے قتل کو دیکھنے سے کبھی بھی درست نتائج پر نہیں پہنچا جاسکتا۔
اس نظام کی حدود میں بھٹو کا اقتدار میں آنا ہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ جس نظام کے ڈھانچوں میں کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے وہ نظام ہی حکومت کو چلاتا ہے۔
یہ مظاہرے روسی سماج میں سطح کے نیچے پنپتی بے چینی اور بیزاری کا اظہار ہیں جو بڑے پیمانے پر بھی پھٹ سکتی ہے۔
عوام کو تو جینا ہے۔ اس جینے کے لیے ان کو ہرروز ایک لڑائی لڑنی ہے۔
پاکستان میں ایسی تحریکیں جن کے نظریات، افکار اور مقاصد محنت کشوں اور عام انسانوں کو درپیش ذلتوں سے چھٹکارا تھے، ان میں آغاز کا کردار اور پہلی چنگاری بننے کا شرف بھی طلبہ کی اسی سیاست کو حاصل تھا۔
یہ انتخابی نتائج آنے والے دنوں میں سیاسی عدم استحکام اور شدید طبقاتی جدوجہد کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔
عالمی سرمایہ داری کو اپنی شرح منافع بڑھانے یا برقرار رکھنے کے لیے جس سستی مگر ہنر مند محنت اور انفراسٹرکچر کی تلاش تھی، چین کا سماج اور محنت کی منڈی اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھے۔
اتر پردیش کا اہم قصبہ ’’دیوبند‘‘، جہاں سے ایک بڑے مسلم فرقے کا جنم ہوا، وہاں مسلمانوں کا 70 فیصد سے زائد ووٹ تھا اور وہاں سے بھی بی جے پی نے ہی کامیابی حاصل کی۔
ان قومی اور مذہبی نفرتوں کے خلاف ایک حقیقی اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باوجود دہلی اور دوسرے شہروں میں طلبہ کے احتجاج پھٹ پڑے ہیں۔ یہ ہندوستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے جاری طلبہ سیاست کے تحرک کا ہی تسلسل ہے۔
کروڑوں ’’نامعلوم‘‘ انسان انصاف کے ان مندروں کے ٹل بجا بجا کر،دروازے کھٹکا کھٹکا کر چلے جاتے ہیں لیکن زندگی بھر ان کو انصاف نہیں ملتا۔