طلبہ سیاست کی تنزلی؟

تحریر: لال خان

پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کے حالیہ تصادم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلبہ یونینوں پر پابندی سے تعلیمی اداروں میں تشدد کا خاتمہ نہ ہوا ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ یہ واقعہ جو قوم پرست اور مذہبی قدامت پرست طلبہ تنظیموں کے درمیان پیش آیا، گو میڈیا میں کافی حد تک منظر عام پر آیا ہے، لیکن یہ کوئی اکلوتا یا منفردواقعہ نہیں ہے۔ ایک طرف بنیاد پرست تنظیموں کو غنڈہ گردی کی کھلی چھوٹ حاصل ہے تو ترقی پسند سیاست کے تمام راستے طلبہ پر بند کر دئیے گئے ہیں۔ طلبہ کے مختلف گروپوں میں تصادم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں واقعات مسلسل جاری رہتے ہیں، جن کو شاید میڈیا کی زینت نہیں بنایا جاتا۔ لیکن آج مختلف گروہوں کے مابین زیادہ ترتصادم اور پرتشدد کاروائیاں، سیاسی یا نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ پیسے، مالی تضادات، طاقت کے توازن، غنڈہ گردی کی برتری اور جنسی حسد و عناد کی بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ طلبہ سیاست اور یونینوں پر پابندی کی ظاہری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان اداروں کے قیام سے طلبہ کی تدریسی توجہ اور انہماک میں کمی آتی ہے اور اس سیاست سے تعلیمی اداروں کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ اگر غور کریں تو یہ ’’ماحول‘‘ طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کے فقدان کی وجہ سے کہیں زیادہ ’’خراب‘‘ ہی ہوا ہے۔ منشیات کے استعمال سے لے کر دہشت گردی اور پھر دوسرے جرائم میں طلبہ کا غرق ہونا کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔
پیسے اور دولت کی ہوس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا ہے اور جہاں تعلیم اور علاج کے ادارے ہی طبقاتی بنیادوں پر قائم ہوں وہاں پنجاب یونیورسٹی جیسے سرکاری ادارے جہاں کم از کم درمیانے طبقے کے طلبہ کو جانا نصیب ہوسکتا ہے ان کے اندر بھی طلبہ میں محاذ آرائی ایسے گروہوں کے درمیان ہوتی ہے جن کے سربراہ زیادہ تر یا تو بہت امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر انکی دہشت کی بنیاد انکی تشدد کی حرکات اور غنڈہ گردی ہوتی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1950ء کی دہائی سے لے کر ضیا الحق کے دور تک طلبہ سیاست میں جہاں نظریاتی تفریق بہت واضح تھی اور اسی بنیاد پر سیاست ہوتی تھی وہاں بائیں بازو کی سیاست کم از کم بہت حد تک مالیاتی مداخلت اور اسکے جبر سے مبرا ہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایسی تحریکیں جن کے نظریات، افکار اور مقاصد محنت کشوں اور عام انسانوں کو درپیش ذلتوں سے چھٹکارا تھے، ان میں آغاز کا کردار اور پہلی چنگاری بننے کا شرف بھی طلبہ کی اسی سیاست کو حاصل تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف حکومتیں چاہے وہ سیاسی تھیں یا فوجی، ان کی مداخلت رہی تھی لیکن مارکسزم کی سیاست کرنے والے بائیں بازو کے طلبہ اور لیڈر ان تعلقات اور ناطوں سے مبرا اس لیے رہتے تھے کہ جن نظریات کی سیاست وہ کررہے تھے اور جن پر مبنی وہ ان بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کی تعمیر کرتے تھے ایسے نظریات میں بالادست طبقات اور ریاستی حکمرانوں سے کوئی تعلق، کوئی واسطہ، کوئی امداد ان کی ساری سیاست اور نظریات کی ہی نفی کردیتی تھی۔ اس بیرونی اور مالیاتی سرمائے کی مداخلت کے بغیر یہ سیاسی تنظیمیں اور طلبہ یونینیں زیادہ طاقتور اور فعال اور بڑی سوچوں کی حامل ہو کر پورے معاشرے کو جھنجوڑ دینے کی شکتی رکھتی تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی اور اہم تحریک جس نے پورے ملک کے محنت کشوں اور عوام کو ابھار دیا تھا اور ایک انقلابی صورتحال کو جنم دیا تھا، وہ راولپنڈی پولی ٹیکنیکل اور گارڈن کالج سے شروع ہوئی تھی۔ 1968-69ء میں طلبہ کی اس بغاوت نے پشاور سے لے کر چٹاگانگ (مشرقی پاکستان) تک پورے ملک میں محنت کشوں کی جدوجہد کے راستے پر ایک چنگاری بن کر وہ مشعل روشن کی جس نے اس سماج میں قائم ملکیت کے رشتوں، سیاسی ڈھانچوں کو یکسر بدل کر رکھ دینے کی منزل کو ان کی نظروں میں منور کردیا تھا۔ 1968-69ء کی تحریک صرف سیاست اور ریاست کی حاکمیت کو بدلنے کے لیے نہیں ابھری تھی بلکہ اس کا بنیادی کردار یہاں پر رائج استحصال کے نظام اور معیشت کے بنیادی رشتوں اور سماجی ڈھانچوں کو توڑ کر ایک نئے اشتراکی نظام کو رائج کرنا تھا۔ اسی تحریک نے پیپلز پارٹی کو راتوں رات پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی قوت بنا دیا تھا، لیکن پیپلز پارٹی نے سوشلسٹ انقلاب کا صرف پروگرام دیا تھا، نہ وہ کوئی بالشویک لینن اسٹ پارٹی تھی او رنہ ہی اس کے پاس اس تحریک کو ایک انقلابی فتح سے ہمکنار کرنے کاکوئی لائحہ عمل، تیاری اور ڈھانچے تھے۔ پیپلز پارٹی اسی ریاستی اقتدار میں آکر اس نظام کو تبدیل کر بھی نہیں سکتی تھی۔ اس لیے وہ محض ریڈیکل اصلاحات تک ہی محدود رہی۔ لیکن کسی متروک اور بحران زدہ نظام میں عوام میں خوشحالی لانے والی اصلاحات کی نہ تو گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی صلاحیت۔ اس ناکامی سے جس بحران نے جنم لیا اس سے کاری ضرب بائیں بازو کی خصوصاً طلبہ سیاست کو لگی۔ اس کے ردعمل میں ہمیں جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی، رجعتی اور دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کا ابھار خصوصاً پنجاب میں ملتا ہے۔ طلبہ میں کوئی ترقی پسند متبادل نہ ہونے کی وجہ سے جس محرومی کا احساس تھا، اس میں مذہبی پارٹیوں کی ذیلی تنظیموں کی مسلح طاقت کا خوف ان کو بے حسی کا شکار کرتا چلا گیا۔ ان پارٹیوں کو پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری سالوں میں حکومتی امداد بھی حاصل ہونا شروع ہوگئی تھی کیونکہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں میں تحریک کی ناکامی کے خلاف شدید غم وغصہ ان میں بغاوت اور مزاحمت کی تحریکیں بھی ابھارہا تھا۔ ریاستی اقتدار کے دوران پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے حکومتی اور ریاستی طاقتوں کو ان بائیں بازو کے طلبہ اور ان کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ میدان میں اس کام کو عملی جامہ یہی دائیں بازو کی مذہبی تنظیمیں پہنارہی تھیں۔ ان کو جزوی ریاستی آشیر باد اس دور میں حاصل ہوچکی تھی۔ لیکن پھر ضیا الحق نے سامراجی ایما پر جب بھٹو اور پیپلز پارٹی کو معزول کیا۔ ضیا آمریت کو مسلط کرنے کا ریاستی و سامراجی مقصد بائیں بازو اور خصوصاً طلبہ وٹریڈیونین کے سرگرم کارکنان اور سیاست کو کچل دینا ہی تھا۔ اس کا حتمی ارادہ سرمایہ دارانہ جبرواستحصال اور سامراجی لوٹ گھسوٹ کے خلاف ہر مزاحمت اور بغاوت کے عنصر کو مٹا دینا تھا۔ ایسے میں ان دائیں بازواور مذہبی رجعت کی طلبہ تنظیموں کی چاندی لگ گئی۔ نہ صرف ریاستی طاقت کی مکمل پشت پناہی ان کو حاصل تھی بلکہ مالیاتی اور اسلحہ کی فراوانی بھی ان کو حاصل ہوگئی۔ یہ وہ دور تھا جس میں بائیں بازو کی طلبہ سیاست کے کارکنان اور لیڈروں پر ایک کٹھن آزمائش آن پڑی تھی۔ لیکن بغیر کسی بیرونی حمایت کے ان بائیں بازو کے طلبہ نے بہت سارے مقامات پر سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات جیتے، اپنے سچے جذبوں کی طاقت اور سائنسی نظریات کے یقین کے ساتھ رجعتی قوتوں کو شکست بھی دی۔ اس سے ضیا آمریت خوفزدہ ہوگئی اور اس نے طلبہ سیاست اور طلبہ یونین پر پابندی لگا دی۔ ریاستی جبر میں ہزاروں طلبہ کو قیدوبند اور پھانسیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان کے نظریات کو قتل نہیں کیا جا سکا۔
جمہوریت کی آمد کے بعد بھی جہاں ضیا آمریت کی آئینی ترامیم و قوانین برقرار اور جاری رکھے گئے، وہاں طلبہ سیاست پر آج بھی پابندی قائم ہے۔ لیکن طلبہ کو ہمیشہ اس جکڑ میں بند نہیں رکھا جاسکتا۔ ان پر مالیاتی، سماجی اور ریاستی تشدد سے ان کی تحریک کے ابھار کو روکا نہیں جاسکتا۔ لیکن طلبہ کو جو اپنا تاریخی کردار ادا کرنا ہے اس کے لیے وہ انقلابی نظریات اور لائحہ عمل درکار ہیں جو اس معاشرے سے طبقاتی نظام تعلیم، محرومی، غربت، افلاس، بیماری، دہشت گردی اور ذلت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرسکیں۔

متعلقہ:

طلبہ یونینز سے خوفزدہ کون؟