یوم مئی: ہم ساری دنیا مانگیں گے!
اپنے مکمل اختتام سے قبل یہ نظام ماضی سے زیادہ وحشی اور خونخوار ہوچکا ہے۔
اپنے مکمل اختتام سے قبل یہ نظام ماضی سے زیادہ وحشی اور خونخوار ہوچکا ہے۔
جبر کے اداروں کی وردیوں کے رنگ بدلنے یا کوئی دوسری نام نہاد اصلاحات کرنے سے وہ ’’عوام دوست‘‘ نہیں بن سکتے۔
یہ یومِ مئی غیر معمولی حالات میں منایا جا رہا ہے۔ اس نظام کی معیشت، سیاست اور ریاست کے بڑھتے ہوئے تضادات محنت کش طبقے کی توجہ کے متقاضی ہیں۔
عوام کی بجائے عالمی اور مقامی مقدر حلقوں کوطاقت کے نئے ’سرچشمے‘ سمجھ لینے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا زوال تیز تر ہے۔
پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد اور انقلابی پارٹی کی تعمیر میں منوبھائی کا ناقابل فراموش کردار ہے جو کالم نگاری، اردو ادب، ٹی وی ڈرامے اورشاعری میں ان کے بے مثال کردار سے بھی زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے۔
پارٹیاں عہد سے مطابقت رکھنے والے مسائل اور کرنٹ ایشوز کے مطابق اپنے انتخابی منشور تو ہر الیکشن سے قبل تبدیل کر سکتی ہیں۔ مگر کوئی بھی پارٹی اپنے قیام کے مقاصد کو بعد ازاں تبدیل نہیں کر سکتی۔
موجودہ عہد میں مزدورتحریک اور محنت کشوں کو درپیش مسائل کا تدارک کرنے کیلئے صف بندی کی ضرورت ہے۔ صرف دن منانا، ریلیاں اورجلسے منعقد کرنامحنت کشوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین کے اپنے کئے گئے تجزے کے علاوہ کسی اور تناظر میں 1977ء کی فوجی بغاوت یا پھر بھٹو کے قتل کو دیکھنے سے کبھی بھی درست نتائج پر نہیں پہنچا جاسکتا۔
80ء کی دھائی سے ٹریڈ یونین کی ترقی معکوس سمت میں رہی ہے، کل مزدوروں کا محض ایک فیصد سے بھی کم حصہ ٹریڈ یونینوں میں منظم ہے۔
حکمران طبقے نے بہت چالاکی سے کراچی پر حکمرانی کرنے والے ظالموں کے پہلے گروہوں کی جگہ پردیگر ظالم گروہوں کو مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔
بحرانوں میں اپوزیشن پارٹیاں اپنے مجرمانہ کردار کے حامل قیدیوں کو چھڑاتی ہیں۔ دھرنوں اور لاک ڈاؤن کی دھمکیوں اور یلغار کی آڑ میں کئی طرح کی سودے بازیاں ہوتی ہیں۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کے محنت کش عوام کو مسلسل منتشر اور شہر کو مسلسل خوف و ہراس میں مبتلا رکھنے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ایم کیو ایم کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کا اغوا اور امجد صابری کے لرزہ خیز قتل نے ان تمام دعووں کو مشکوک کردیا ہے جوپچھلے چند ماہ سے کئے جارہے تھے۔
عام لوگوں نے‘ جن میں بلاشبہ اردگان کے طرز حاکمیت کو پسند کرنے والوں کی نسبت اس کے مخالفین کی غالب اکثریت تھی، نے دلیرانہ کردار ادا کرتے ہوئے تاریخ رقم کردی۔
ساری عمر ناانصافیوں کے نظام کو قائم رکھنے والے ’ناصح‘ بن کر پورے سماج کو اپنے انداز میں چلانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔