ترکی: ایسا بھی ہو سکتا ہے!

| تحریر: قمرالزماں خاں |

اگرچہ ترکی میں بغاوت چند ہزار فوجی جوانوں اورانکی راہنمائی معدودے افسروں نے کی، مگر ساڑھے چھ لاکھ فوج کے متحد اور مضبوط چین آف کمانڈ کو توڑنے والی اس بغاوت کی کامیابی کا انحصارجن عوامل، فوج کی موضوعی کیفیت، حکمت عملی اور معروض پر تھا، وہ موجود نہ تھے۔ ، فوجی بغاوت سے بھی زیادہ پتلی حالت چیف آف جنرل سٹاف ’ہلوسی عقر‘ کی نکلی، جو باآسانی باغیوں کے نرغے میں آکر اپنے فوجی مستقبل کا خاموشی سے خاتمہ کرچکے ہیں۔ چیف آف سٹاف کو کسی گلی میں جاتے تواغوا نہیں کیا ہوگا، انکی آرمی چیف کے طور حفاظتی بندوبست نے ناٹو کی دوسری بڑی فوج کی حالت زار کی عکاسی کردی ہے۔ فرار نہ ہوکر پکڑے جانے والے جنرل، جنرل نیازی سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں، وہی کھسیانہ پن اور وہی غیر پیشہ ورانہ سٹائل اور بالآخر سینے پر گولی کھانے کی بجائے ہجوم کے ہاتھوں شرمناک گرفتاری اورعبرت ناک برتاؤ کا شکار۔ صدراردگان، وزیراعظم بن علی یلدرم، نائب وزیر اعظم علی بابکن اوردوسرے حکومتی اہداف کو پہلے ہی حملے میں نشانہ بنانے کی بجائے پلوں پرقبضوں اور سڑکوں پرغیر موثرگشت کرنے والے ٹینکوں کی ’شوبازی‘ جلد ہی اپنے انجام سے دوچار ہوگئی۔ فوجی سطح پر قدرے تاخیر سے‘ اس بغاوت کو کچلنے کے آثار نظر آتے ہیں، اس ہچکچاہٹ کی وجوہات کا تعلق ’بغاوت‘ کے اونٹ کی کروٹ کا جائزہ لینے سے بھی ہوسکتا ہے اور مجموعی طور پر فوج کی غیر پیشہ ورانہ کیفیت اور مارشلاؤں کے فوائدکی تساہل پسندی کے بھی اثرات ہوسکتے ہیں۔

TURKEY-SECURITY/
عوام کی بڑی تعداد نے اردگان سے تمام تر نفرت کے باوجود فوجی کُو کی مخالفت کی۔

ایک اہم عامل فوجی بغاوت کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں نکلنے والے شہری تھے، جنہوں نے ایک لمحے کے لئے اپنے سارے رنج، تکالیف اوراردگان کی ناپسندیدہ آمرانہ روش کو بھلا کر صرف ایک ہدف، فوجی بغاوت اور فوج کی حکمرانی کو مسترد کرنے کو ترجیح دی۔ عام لوگوں نے‘ جن میں بلاشبہ اردگان کے طرز حاکمیت کو پسند کرنے والوں کی نسبت اس کے مخالفین کی غالب اکثریت تھی، نے دلیرانہ کردار ادا کرتے ہوئے تاریخ رقم کردی۔ جان کی قربانی سے پہلے جذبہ ہوتا ہے جو نہتے لوگوں میں اتنا تھا کہ انہوں نے مقابل وردی اور بندوقوں کو ہی نہیں بلکہ چنگھاڑتے ہوئے ٹینکوں اور دل کو دہلادینے والے جنگی جہازوں کی گھن گرج اور موت کی وحشت کو بھی شکست فاش دی۔ عوامی طاقت کا مظاہرہ پچھلے کئی سالوں میں ثابت کرچکا ہے کہ اس بپھری ہوئی عوام کی یلغار کے سامنے ریاست کے تشدد کرنے والے اداروں کی طاقت ریت کی دیوار سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ حالیہ سالوں میں پہلے مراکش، پھر مصر میں ایک دفعہ نہیں دو بار عوام نے دیوہیکل ریاستوں کے زعم کو خاک میں ملا کررکھ دیا تھا۔
ترکی میں لوگ چار مارشل لاؤں کے نام نہاد کرشموں سے سرفراز ہوچکے ہیں۔ فوجی حکمرانی کے نام پر فوجی اشرافیہ کی لوٹ مار ایک عمومی مظہر ہے، اسکے لئے کسی خاص سرزمین، خطے یا ملک کا حوالہ زائد بات ہے۔ ترکی کے عوام نے حالیہ الیکشن کے پہلے مرحلے میں اپنی پسندیدگی اور ناپسندیدگی دونوں کو ہی واضح کردیا تھا۔ لوگوں نے پہلے مرحلے میں اردگان کی آمرانہ آئینی اصلاحات کو واضح طور پر رد کردیا تھااور اسکو درکار اکثریت دینے سے انکار کردیا تھا۔ مگر جس قسم کا منقسم مینڈیٹ آیا تھا، اس سے کوئی حکومت نہ بننے کے امر نے اگلے مرحلے کے الیکشن میں ووٹرز کے پاس متبادل چوائس نہیں رہنے دی تھی۔ ترکی کی معیشت کے طلسمات سے اگر ’’نجکاری‘‘ سے حاصل کردہ دولت کو نکال دیا جائے تو پھر موجودہ 135 ارب ڈالر کے ذخائر کی سطح بہت ہی نیچے سرک جائے گی۔ ماضی کی 7 فیصد کی نسبت شرح نمو کم ہوکر 4.8 فی صد سالانہ پر آچکی ہے۔ سامراجی کیمپ کا حصہ ہونے کی وجہ سے سامراجی سرگرمیوں میں شمولیت ایک حقیقت ہے مگر علاقائی سیاست میں ترکی کے اپنے سامراجی مفادات عدم استحکام کی بھٹی میں مسلسل پیٹرول چھڑکنے کا کام دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں دیگر بہت فیکٹرز کیساتھ اردگان کی پالیسوں کا نمایاں کردار ہے۔ داعش کی حمایت، دہشت گردوں کے ہاتھ عراق کے تیل کی سستے داموں خریداری سے انکی مالی امداد اورفکری ہمدردی کے مظاہر چھپائے نہیں چھپتے۔ داعش پر روسی حملوں اور عراق میں جنگ کرنے والی شیعہ ملیشیا کے حملے اردگان کو کسی طور ہضم نہیں ہوتے۔ ناکام فوجی بغاوت کے فوراً بعد‘ اپنے حریف اور پنسلوینیا میں مقیم فتح اللہ گولن پر اس بغاوت کے تانے بانے ملاتے ہی، اردگان نے ترکی میں امریکہ کے زیر استعمال اس ہوائی اڈے کو غیر موثر بنایا ہے جہاں سے جہاز داعش کو نشانہ بنانے کے لئے اڑتے تھے۔ اردگان کا اختیارات کو اپنی ذات کے گرد جمع کرنے کا خطرناک رجحان دراصل اپنے ہر مخالف کو تہس نہس کرنے کی سوچ کی وجہ سے ہے۔ الیکشن میں بائیں بازو کی کرد پارٹی ’ایچ ڈی پی‘ جس نے اپنے علاقوں میں 92 فیصد ووٹ لئے تھے کے خلاف ستمبر 2015ء میں کاروائی کرتے ہوئے اسکے 400 سے زائد دفاتر بند کردئیے، اسی طرح کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے )کے خلاف انتقامی کاروائیاں کی گئیں اور کردوں کے علاقوں پر بمباری کی گئی۔ ان کو داعش کے خلاف لڑتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔
شہروں میں اردگان کے متشدد اور آمرانہ رجحانات کے خلاف خاصی تشویش ہے۔ اسی طرح ترکی میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنا ن کے خلاف ریاستی سطح کا تشدد، قتل وغارت گری اور انتقامی حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ترکی کی 1921ء میں بننے والی کمیونسٹ پارٹی ہر دور میں آمریت اور جمہوری حکومتوں میں ترکی کے ریاستی جبر وتشدد کا پہلا ہدف رہی ہے۔ اردگان کے دور میں اس نے مزید شدت ہی اختیار کی ہے۔ اتاترک کی سوچ اور سیکولرازم کے رجحانا ت کے ساتھ بھی اردگان اور اسکی فکر کا تضاد اور ٹکراؤ ہے۔ ترک سماج کی طرح ریاست کے اداروں میں بھی مختلف نظریاتی، سیاسی رجحانا ت موجود ہیں، جن کے تضادات کا ایک مظاہرہ موجودہ فوجی بغاوت کا ٹوٹنا ہے۔ اتنے تضادات کی موجودگی میں ترک عوام کا فوجی بغاوت کے دوران سرعت سے نکل کر سڑکوں پر دست بدست لڑائی کے لئے خود کو پیش کرنا بہر حال ایک شاندار اور قابل تعریف مظہر ہے۔ ماضی کے چار مارشل لاؤں کے خلاف ایسی کوئی مزاحمت نظر نہیں آتی۔ فوجی بغاوت کا عوامی جواب ’’ترکی بہ ترکی‘‘ تھا۔ اس عوامی ردعمل کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔ ترکی میں عوام نے اپنا کردار ادا کردیا ہے، مگر اب جس جبر کے کھیل کا آغاز رجب طیب اردگان نے کیا ہے وہ اسکو کسی خاص مرحلے پر روکنے کی بجائے بڑھاتا ہی جائے گا، لیکن یہ لامتناہی طور پر نہیں بڑھ سکتا، اسکا رد عمل شاید اس سے دگنی شدت سے ابھرے گامگر یہ ردعمل فوج کی جانب سے نہیں بلکہ اسی عوام کی جانب سے ہوگا جس نے اس دفعہ اردگان کو بچایا مگر جب عوام نے اردگان کے خلاف 15 جولائی جیسا ردعمل دیا تو پھر ترکی میں ایک نئی داستان کا آغاز ہوگا۔ بہرحال یہ کوئی عجب بات تو نہیں ہے کہ کسی طالع آزمائی کی شکل میں اس قسم کے 15 جولائی جیسے عوامی ردعمل کا خواب دیکھا جائے۔
اگرچہ پاکستان میں لگنے والے چارمارشل لاؤں میں سے آخری دو مارشل لا لگوانے میں سیاسی پارٹیوں، عوامی حمایت سے محروم راہنماؤں، مذہبی رجعتی عناصراور انتہائی پست شعورکے موقع پرستوں کی حمایت اور آشیر باد رہی ہے۔ حکمران سیاسی پارٹیوں کی عوام سے لاتعلقی یا دوری کا فیکٹر سب سے اہم تھا اور آج بھی ہے۔ یہ رشتہ ہمیشہ کمزور رہا ہے۔ اس لئے کسی بھی فوجی بغاوت کی صورت میں یہاں فوری رد عمل تذبذب آمیز رہا ہے۔ باوجود بار بار آزمائی جاچکی فوجی حکومتوں، انکی ناکامیوں اوربدعنوانیوں کے‘پاکستان میں ایسے عناصر کی کمی نہیں رہی جو غالباً پے رول پر رہ کر سویلین کی جگہ پر فوجی حاکمیت کو کھلے عام دعوت دیتے پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں‘آئین سے ماورا فوجی بغاوتوں کو ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت قانونی حیثیت دینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ یا شرمندگی محسوس نہیں کرتیں۔ لیکن یہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ کس کی ’’ضرورت‘‘ کی غمازی کرتا ہے۔ یہ ضرورت اس سماجی واقتصادی نظام کی ہوتی ہے جو ان معاشروں پر مسلط ہے۔ جب اس کا بحران شدت اختیار کرجاتا ہے، سرمایہ داری کے خلاف عوام کی بغاوت پھٹ پڑتی ہے یا اس کا شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے تو حکمران فوجی جبر کے ذریعے اس کو کچلنے کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن پھر فوجی آمریتیں بھی اس نظام کی موضوعی متروکیت کی وجہ سے بحران کی مزید بھیانک کیفیت اختیار کرتی ہیں۔ آمریتوں میں بغاوتیں بھڑک اٹھتی ہیں تو ان کی شدت بعض اوقات انقلابی کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کو قیادتیں اورریاستیں پھر سرمائے کی جمہوریت کے پرفریب حل کی جانب موڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس نظام اور ریاستی ڈھانچے کو ایک ’جمہوری روپ‘ دے کر سرمایہ دارانہ استحصال جمہوری بنیادوں پر جاری رکھا جاتا ہے۔ عوام مزید غربت اور ذلت کی کھائی میں گرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں جنم لینے والی مایوسی کو بعض دائیں بازو کے حکمران پھر فوج کو دعوت دے کر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ گھن چکرجو ں جوں طویل عرصے تک چلتا رہتا ہے اور نظام کی تنزلی انتہاؤں کو پہنچ جاتی ہے تو اس عمل میں ریاستیں بھی بدعنوانی اور پیسے کی ریل پیل میں گلنا سڑنا شروع ہوجاتی ہیں او ر فوجوں کے پاس مارشل لا لگانے کی صلاحیت اور ریاستی جڑت ٹوٹنے سے وہی کچھ ہوتا ہے جو ترکی میں ہوا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اس نظام زر کے حکمران طبقات پر حاکمیت کے مختلف ہتھکنڈوں کی ناکامی اس نظام کے متروک اور گل سڑ جانے کی غمازی ہی کررہا ہوتا ہے۔ آمریت کے آتے ہی سارے کے سارے مذہبی پنڈت ایک منٹ سے پہلے فوجی آمریت کی گود میں لیٹ کر اقتدار کا فیڈر پینے کے متمنی ہوتے ہیں۔ دانشوروں کی ایک خاطر خواہ تعداد ہر دور میں ایک نام نہاد احتساب کا مطالبہ کرتی پائی جاتی ہے جو انکی دانست میں (خود ناک تک بدعنوانی میں دھنسی ہوئی) فوجی اشرافیہ ہی کرسکتی ہے۔ ایسے میڈیائی بزرجمہروں کی تعداد بھی کم نہیں جوسیاسی حکومتوں کی کارکردگی کا کڑا تجزیہ کرتے ہوئے متبادل اداروں کی‘انکے اپنے میدان میں شرمناک اور بدترین کارکردگی کو دانستہ طور پر بدیانتی سے نظر انداز کردیتے ہیں۔ جب اتنے سارے عناصر عام لوگوں کے شعور کو پست کرنے اور دھوکہ دینے میں مصروف ہوں تو پھر عام لوگ فوجی بغاوت کے خلاف کس طرح فوری طور پر نکل سکتے ہیں۔ تذبذب اور فکری انارکی کے پھیلاؤ کا کاروبار عروج پر ہے۔
یہ نہیں کہ پاکستان میں کبھی عوام نے فوجی آمریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے نہیں دیکھا۔ 1977ء کی فوجی بغاوت کے بعد اگرچہ فوری ردعمل اتنا شدید سامنے نہیں آیا مگر پاکستان پیپلز پارٹی اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں نے ضیاالحق کی جابرانہ فوجی حکومت کے خلاف ایک قابل ذکر جدوجہد کی، جسکی پاداش میں کوڑے کھائے، شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں سزائیں جھیلیں، پھانسی کے پھندوں پر جھولنے والوں نے آخری دم تک اپنے پاؤں میں لغزش محسوس نہیں کی۔ ایسی جدوجہداور قربانیوں کی تاریخ پورے جنوب ایشا میں نظر نہیں آتی۔ اس سے قبل 1967-69ء میں فوجی جنتا کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی اس ملک میں سب سے قابل ذکر جدوجہد تھی، مگردو فوجی جرنیلوں کے قدم اکھاڑنے والی اس تحریک کی قوت محرکہ‘ اسکاسوشلسٹ نظریہ اور انقلابی سیاسی پروگرام تھا۔ اس تحریک میں لوگوں نے ثابت کیا تھا کہ لڑا بھی جاسکتا ہے اور فوجی حاکمیت والی سرمایہ دارانہ ریاست کو شکست بھی دی جاسکتی ہے۔ اسی تحریک کے مقاصد کے ساتھ ’قیادت کے کھلواڑ‘ اور حقیقی مقصد ’سوشلسٹ انقلاب‘ کی بجائے’ سرمایہ دارانہ جمہوریت‘ کی طرف لپک کر منزل کو کھودینے کے دھوکے نے پاکستان کے محنت کش طبقے اور عوام کہلانے والی قوت کا اعتبار مجروح کرکے رکھ دیا تھا۔ یہ اعتبار آج تک بحال نہیں ہوا۔ ایک نئی تحریک اس نئے عزم، جذبے اور اعتبار کو جنم دے سکتی ہے جو پاکستان کے اٹھارہ بیس کروڑ بکھرے، بھٹکے، پریشان حال لوگوں کو ایک مضبوط طبقاتی بندھن میں جوڑ کر ایسی طاقت بنا سکتا ہے جس کی ایک معمولی سی جھلک 15 جولائی کو ترکی کی سڑکوں پر دیکھی گئی۔

متعلقہ:

ترکی: ’’سلطان‘‘ کا لرزتا اقتدار!