اب کے 4اپریل اور ہمالہ کے اس پار جلتے چراغ

تحریر: فارس:-

4اپریل 1977ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے ۔جب پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو کو امریکی سامر اج نے دو ریاستی اداروں فوج اور عدلیہ کے ذریعے قتل کرایا۔جس کی بنیاد ی وجہ یہ تھی کہ68-69ء کے انقلاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کی حیثیت انقلاب کے محور و مرکز میں تبدیل ہو چکی تھی۔تاریخ کے اس دور میں جب پوری دنیا انقلابی تحریکوں کی زد میں تھی، جب پوری دنیا کے عوام سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف صف آراء ہو کر جد وجہد کر رہے تھے پاکستان کے محنت کشوں نے بھی اپنی جد و جہد کے ذریعے ایک لا زوال تاریخ رقم کی تھی۔تاریخ اور سیاسی اعتبار سے 68-69ء کی موومنٹ کے کردار کے تعین کی ذمہ داری اس وقت کی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر عائد ہوتی تھی۔ لیکن کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اپنے دو مرحلوں والے انقلاب کی حامل دانش اور فکر کے باعث تحریک کے کردار کو سمجھنے سے قاصر رہی۔ جب پاکستان کا محنت کش طبقہ اپنی تاریخ رقم کر رہا تھا۔ اس وقت کا لفٹ تحریک کی قیادت کرنے کے بجائے وہ اس مرحلے کو انقلاب کیلئے ناموزوں خیال کر رہا تھا ۔اس خلا ء کو پاکستان پیپلز پارٹی نے پر کیا ۔پیپلز پارٹی نے اپنے پروگرام کو تحریک کے کردار کو سمجھتے ہوئے محنت کشوں کے بنیادی مسائل سے جوڑا ۔نیز پیپلز پارٹی نے اپنے پروگرام میں شامل اہداف کو حاصل کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ تمام مسائل سو شلزم پر مبنی منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ختم کئے جا سکتے ہیں ۔ اس سے ہٹ کر طاقت کا اصل سر چشمہ عوام کو قرار دیا گیا ۔ذوالفقار علی بھٹو کی کر شماتی شخصیت نے تحریک کے جوش و جذبے اورکردار سے مطابقت حاصل کرتے ہوئے تحریک کے محور اور مرکز اور قائد کی حیثیت حاصل کرلی ۔یوں بغاوت پر اترے عوام کا اور پیپلز پارٹی کا ایک تاریخی ملاپ ہوا اور خیبر سے لیکر کراچی تک پیپلز پارٹی راتوں رات پاکستان کی سب سے بڑی عوامی پارٹی بن کر ابھری ۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کا جنم ایک انقلابی دور میں ہوا جس کی سرشت میں سامراج مخالف اور Anti-Establishment جذبات اور احساسات پائے جاتے ہیں ۔اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور اقتدار کو چھوڑ کر بعد میں آنے والی پیپلز پارٹی کی قیادتوں سے لے کر موجودہ PPP قیادت تک سب نے محنت کش طبقے سے غداری کی اور مکمل طور پر ریاستی قوتوں کی آلہ کار بن کر محنت کش عوام کا استحصال کرتی رہیں۔لیکن اس سب کے باوجود پیپلز پارٹی اپنی بنیاد اور پروگرام کے دو اہم نکات، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سر چشمہ عوام،کی وجہ سے اسی رجعتی ریاست کے ساتھ اپنی تمام تر مفاہمتوں کے باوجود متصادم رہی ۔جس کا اظہار ہزاروں پیپلز پارٹی کے کارکنان اور قیادت کے قتل عام سے ہوتا ہے۔جہاں تک پیپلز پارٹی کے پروگرام کے دیگر دو نکات ،جمہوریت ہماری سیاست اور اسلام ہمارا دین ہے ،کی بات ہے تو یہاں پر بہت سی پارٹیاں جمہوریت کے نام پر سیاست کر رہی ہیں ۔ان کی لیڈر شپ کو ریاست نے کبھی قتل نہیں کیا ۔یہاں بے شمار مذہبی پارٹیاں اسلام کے نام پر سیاست کر رہی ہیں ۔ان کی لیڈرشپ کو بھی ریاست نے کبھی قتل نہیں کیا ۔لیکن پیپلز پارٹی کے کارکنان اور قیادت کا قتل عام کیا جاتا رہا تو اس کی اہم وجوہات میں پھر یہ دو اہم نکات ،سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں ۔ جواس رجعتی ریاست کے دو قومی نظریے والے پروگرام سے متصادم ہیں جس کے مطابق مسلمان ایک قوم ہیں ۔
اگرچہ تاریخ نے خود ہی دو قومی نظریے کو متروک کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے ۔لیکن یہاں محنت کشوں پر ابھی تک انہی رجعتی قوتوں نے اپنی اندھیر نگری ،ڈاکو راج ،غنڈہ گردی اور ظلمت کو مسلط کر رکھا ہے ۔ لیکن وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔رات چاہے جتنی بھی طویل اور سیاہ ہو اس کے بطن سے صبح ضرور پھوٹتی ہے ۔یہ 2012ء ہے ، 68-69ء کی جس نسل نے انقلاب کیا تھا اور جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی روایت بنایا تھا وہ اپنے وعدوں کا پاس کرتے کرتے اور پیپلز پارٹی سے وفاداری نبھاتے نبھاتے مر کھپ گئی ہے۔اگرچہ پیپلز پارٹی کی 80ء کے بعد آنے والی تمام قیادت نے محنت کشوں کے ساتھ وہی سلوک کیا ۔جو دائیں بازو کی پارٹیاں رو ا رکھتی ہیں ۔لیکن محنت کشوں کی پچھلی نسلوں نے پیپلز پارٹی سے اپنے رشتے کو تمام تر گلوں ،شکووں اور ناراضگیوں کے باوجود ٹوٹنے نہ دیا ۔بلکہ آنے والی نسلوں تک پیپلز پارٹی کو اس امید پرکہ شاید اب پارٹی ہمارے مسائل کا حل نکالے گی ؛منتقل کرتی رہیں ۔کیونکہ محنت کش عوام ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی طرح بے غیرت نہیں ہوتے کہ روز روز پارٹیاں بدلتے رہیں۔ بلکہ وہ اس کے برعکس جب کسی پارٹی کو اپنی پارٹی بناتے ہیں تو وہ آخروقت تک اس میں رہتے ہیں جب تک کہ ان کی تمام امیدیں ٹوٹ نہ جائیں ۔لیکن آج پانی سر سے اوپرہو رہا ہے اور محنت کش طبقے کی موجودہ نوجوان نسلوں کے ذہن میں اپنے آباؤ اجداد کی سیاسی روایت کے حوالے سے کوئی خواشگوار تاثر بھی نہیں ہے ۔بلکہ آج کی نسلیں اپنے تمام تر مسائل کی ذمہ دار پھر اپنے آباؤ اجداد کی روایت کو ہی سمجھتی ہیں اور اپنی نوجوان نسلوں کو اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے دوران یوں تباہ وبرباد ہوتا دیکھ کر محنت کش عوام کی برداشت بھی ختم ہو رہی ہے ۔وقتی طور پر محنت کش طبقہ اپنی روایت کے ہاتھوں استحصال اور ملنے والے دھوکوں سے گھائل تو ضرور ہوا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ اس وقت ایک سکتے کی کیفیت میں مبتلا ہے اور سیاست سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے۔لیکن اس کی معاشی اور سماجی زندگی اسے تاریخ کے کٹہرے میں اترنے کیلئے مجبور کر رہی ہے ۔اس لئے تاریخ کے میدان میں اترنے سے پہلے محنت کش طبقہ ضروری اسباق سیکھ ر ہا ہے ۔اگرچہ یہاں پر سرکاری ذرائع ابلاغ اور نوٹوں کے لفافے پر اپنی فکر و دانش کو بیچنے والے دانشور محنت کش طبقے کو جاہل ،گنوار اور نکھٹو کہ کر گالیاں دیتے ہیں کہ عوام بے غیرت ہو گئے ہیں لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب انقلابی بھونچال آتے ہیں تو اکثر اوقات لوگ ان کی توقع ہی نہیں کر رہے ہوتے لیکن ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب پوری دنیا کے سرمایہ دار انہ نظام کے نگہبان ذرائع ابلاغ مصر کے حوالے سے کسی انقلابی تحریک کے امکان کو ہی رد کر رہے تھے ۔لیکن مصر کے محنت کش طبقے نے باہر آکر ان کے تجزیوں ،فلسفے اور فکر کی دھجیاں ادھیڑ دیں۔اسی طرح سے یہاں پاکستان کے محنت کشوں کے شعور کو مسخ کرنے کیلئے یہاں کے ذرائع ابلاغ اور حاوی دانش و سیاست مختلف Conspircy Theoriesاور نان ایشوز کو ابھارتے ہیں ۔لیکن ایسا کب تک چلے گا۔ابراہام لنکن نے ایک بار کہا تھا ،کہ آپ کچھ وقت کیلئے سب لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن آپ ہمیشہ کیلئے سب لوگوں کو بیوقوف نہیں بنا سکتے ۔
پاکستان کے محنت کشوں نے تاریخ کے میدان میں اتر کر 68-69ء کی تاریخ کو رقم کیا تھا۔اس کے بعد طبقے نے 40سال سے زائد عرصہ ان حکمرانوں کو دیا ہے ۔ لیکن اس پورے عرصے میں جمہوریت سے لے کر آمریت تک،قوم پرستی سے لے کر مذہبی پارٹیوں کے کردار اور سیاست تک سب کا باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے ۔اب یہ ریاست اتنی مفلوک الحال ہو چکی ہے کہ اس کے پاس اب طبقے کو دینے کیلئے کوئی مصنوعی امید بھی نہیں ہے ۔یوں محنت کش سب کو آزما چکے ہیں اور سب کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور پہنچیں گے کہ یہ تمام تر پارٹیاں اور ان کی سیاست جب تک رہے گی ،بربادی اور تباہی ہمارا مقدر بنتی رہے گی ۔لیکن اس سے ہٹ کر دنیا بھر میں ہونے والی انقلابی جدو جہدیں، تحریکیں اور انقلابات بھی پاکستان کے محنت کشوں کو سکھا رہے ہیں ۔حالیہ عرصے میں پنجاب کے مختلف شہروں میں لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے خلاف مظاہروں اور K.E.S.C،واپڈا ،پاور لومز اور ریلوے کے مزدوروں نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کر کے حکومتی پالیسیوں کو مسترد کیا ہے اور ان نام نہاد دانشوروں کو باور کرایا ہے کہ محنت کش طبقہ ابھی مرا نہیں ہے اور ایک بڑی تحریک میں جانے سے پہلے کے لازمی چھوٹے چھوٹے مرحلے اسے عبور کرنا ہونگے ،جو طبقے کیلئے اپنے اندر انتہائی اہم انقلابی اسباق رکھتے ہیں اور محنت کش عوام ان اسباق سے درست نتائج بھی اخذ کر رہے ہیں جس کا واضح ثبوت اربوں روپوں کی انویسٹمنٹ اور سرکاری سطح پر عمران خان کی تشہیر کے باوجود محنت کش طبقے کا عمومی رجحان تحریک انصاف کے حوالے سے عدم دلچسپی کے طور پر سامنے آیا ہے ۔اس کیفیت میں پاکستان کہ محنت کش 4اپریل 2012ء کو بھی اپنے شہید قائد کی برسی منارہے ہیں لیکن اس بار وہ یقیناًزیادہ درست نتائج اخذ کر کے لاڑکانہ سے لوٹیں گے ۔کیونکہ یہ پھر2012ء ہے ۔جب پوری دنیا انقلابی تحریکوں کی زد میں ہے اور سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے سب سے گہرے بحران میں مبتلا ہے ۔ عرب انقلاب نے بہت پرانی بادشاہتوں اور آمریتوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا ہے ۔پاکستان کے گردو نواح میں بھی عوام اب انقلابی تحریکوں میں شریک ہو رہے ہیں ۔چینی حکمران طبقے کے بیچ پھوٹ، ہندوستان کے اندر کروڑوں لوگوں کی ہڑتال، افغانستان کے اندر پھر سے سوشلسٹ قوتوں کی تعمیر کے عمل کا آغاز یہ سب واقعات محنت کشوں کے احساسات میں اس وقت موجود ہونگے جب وہ 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی منا رہے ہونگے ۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر ان کی اپنی نوجوان نسلیں ان کی رہنمائی کیلئے موجود ہیں۔ جو آج سائنسی سوشلزم کے نظریات کی روشنی میں اپنی جدو جہد کر رہی ہیں۔جس کا اظہار ہمیں پورے ملک کے نوجوانوں کو کسی ایک پلیٹ فارم میں لانے کی مختلف کا وشوں سے ہوتا ہے ۔جس میں نوجوانوں نے خاطر خواہ کا میابیاں بھی حاصل کی ہیں اور یہی نوجوان مستقبل کے انقلاب اور سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھیں گے۔
ہم ہونگے کامیاب ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوشلسٹ انقلاب زندہ باد

متعلقہ:

اداریہ جدوجہد: بھٹو کی میراث کا نیلام؟

دسمبر27 کے زخم کب بھریں گے؟

پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس… سوشلسٹ انقلاب کا کیا ہوا؟

کوئی تو کوہِ ستم کو گرائے گا۔۔۔۔