کوئی تو کوہِ ستم کو گرائے گا۔۔۔۔

تحریر :حارث قدیر:-
ہم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی 33ویں برسی عالمی سطح پر تبدیلی کے عہد کے آغاز میں منا رہے ہیں۔ پوری دنیا تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔، ایک نظام مر رہا ہے، دوسرے نظام کا جنم ہونے کو ہے، پوری دنیا میں تبدیلی کے لئے ابھرنے والی تحریکیں نظام سرمایہ داری کیلئے ایک چیلنج بن چکی ہیں، معاشی بحران ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، اربوں انسان ذلتوں، رسوائیوں ، اذیتوں، بھوک، ننگ، بیروزگاری، لاچاری، بیماری، استحصال اور طبقاتی جبر کا شکار انتہائی کرب ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں دولت چند سے چند ہاتھوں میں سمٹتی جا رہی ہے، امارت اور غربت کے درمیان خلیج ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے، تعلیم کو ایک بیوپار بنا دیا گیا ہے، علاج ایک عیاشی اور روزگار ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، کرہ ارض پر بسنے والے انسان خاصکر نوجوان شدید ذہنی اضطراب اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں۔ نوجوان جو کسی بھی سماج کی سب سے حساس پرت ہوا کرتے ہیں جن کے حوالے سے ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ نوجوان کسی بھی سماج میں بیرومیٹر کی طرح ہوتے ہیں جو آنیوالی تبدیلی کو سب سے پہلے محسوس کرتے اور اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں جیسا کے تاریخ کے مختلف انقلابات میں ہمیں دیکھنے کو بھی ملا کہ نوجوانوں نے انقلابی تحریکوں میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا، 1917کا بالشویک انقلاب ہو یا پھر 1968-69کا پاکستانی محنت کش طبقے کا انقلاب نوجوانوں کا کردار ہمیشہ مثالی اور ہر اول رہا ۔ موجودہ عہد میں جب نظام سرمایہ داری اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور کرہ ارض پر بربادیوں کا ایک لامتناعی سلسلہ عروج پر ہے ،گزشتہ برس کے آغاز میں عرب کے صحراؤں میں ابھرنے والی بغاوت میں نوجوانوں کے ایک بھرپور کردار نے پوری دنیا میں موجود نوجوانوں پر گہرے اثرات مرتب کئے اور سامراج کی کوکھ امریکہ میں بسنے والے نوجوانوں نے وال سٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک کا آغاز کر کے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ نوجوانوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ نظام سرمایہ داری انسانیت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے اور اب وقت آچکا ہے کہ اسے تبدیل کیا جائے۔
پاکستان جیسی ریاست جس کی معیشت عملاً کھوکھلی اور دیوالیہ ہو چکی ہے، جہاں دو وقت کی روٹی تک کھانا عیاشی کے زمرے میں آتا ہو، بجلی گیس، تعلیم، ٹرانسپورٹ، علاج، روزگار سب ایک خواب بن گیا ہے۔ حکمران طبقات اور انکا میڈیا نان ایشوز کو ابھار کر محنت کشوں اور نوجوانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، انہیں الجھانے اور اپنی لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے ہر ہربہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی نوجوان نسل کا ایک بے باک ماضی ہے 68-69میں عبدالحمید کی شہادت سے سلگنے والی چنگاری نے پورے پاکستان کو لپیٹ میں لیا اور نوجوانوں نے اس انقلاب کے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے ریاست کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹوکی قیادت میں پیپلزسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوان کارکنان کا ایک بے باک کردار جس نے مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ اتحاد قائم کرتے ہوئے ریاست کے انتظام کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ گو کہ وہ عظیم انقلاب فتح مند نہ ہو سکا لیکن آج ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر ہمیں اس انقلاب کے فتح مند نہ ہوسکنے کی وجوہات جو خود ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی آخری تصنیف ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں ضبط تحریر لائے تھے کہ’’ میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا کیا گیا ہوں کے میں نے اس ملک کے شکستہ ڈھانچوں کو جوڑنے کیلئے متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان ایک آبرومندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی، موجودہ فوجی بغاوت(5جولائی1977ء)کا سبق ہے کہ متضاد مفادات کے حامل طبقات میں مصالحت ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ اس ملک میں ایک طبقاتی کشمکش ناگزیر ہے جسکے نتیجے میں ایک طبقہ برباد اور دوسرا فتح یاب ہوگا ‘‘کو نوجوانوں تک پہنچانے اور انہیں باشعور کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کے نوجوان تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے اور اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں میں لینے کی صلاحیت سے لیس ہیں۔
سنٹرل افریقن ریپبلک،مالی،سوڈان،ایتھوپیا اور نائیجیریا ایسے ہیں جن میں تعلیم کی حالت پاکستان سے زیادہ خراب ہے۔اس وقت پاکستان میں 70 لاکھ بچے پرائمری تعلیم سے محروم ہیں ۔سیکنڈری سکولوں میں داخلے صرف 23 فیصد ہیں،5 فیصد پاکستانی یونیورسٹی تک جا پاتے ہیں۔ڈھائی کروڑ بچوں کو تعلیم کا بنیادی حق میسر نہیں ہے۔تعلیم کا معیار یہ ہے کہ دیہی سکولوں کے 50 فیصد بچے ایک جملہ بھی نہیں پڑھ سکتے ۔صرف 35 فیصد بچے کوئی کہانی پڑھ سکتے ہیں،25 فیصد بچوں کو سکول کا پتہ ہی نہیں ،خواتین میں صورتحال اور بھی تشویشناک ہے،60 فیصد مائیں بالکل ان پڑھ ہیں ۔طلبہ یونین پر عائد پابندی ایک ایسا جرم ہے جسکی وجہ سے رجعتی اور فاشسٹ تنظیموں کو نوجوانوں پر مسلط کر کے انکا سیاسی حق چھین لیا گیا ہے، اسلحہ کلچر ، غنڈہ گردی اور بھتہ خوری جیسے جرائم کو مسلط کر کے حکمران طبقات اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہیں۔ طلبہ یونین پر عائد پابندی ہی حکمران طبقات کو تعلیم کے بیوپار، تعلیمی اداروں کی نجکاری اور فیسوں میں بے تحاشہ اضافے اور غریب طلبہ کو تعلیم سے دور رکھنے جیسے گھناؤنے اقدامات کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ غریب طلبہ کو سیاست کرنے پر پابندی عائد کر کے نوجوان قیادت کو ابھرنے کے مواقع ختم کئے گئے لیکن دوسری طرف حکمران طبقات کی نسلیں بیرون ممالک سے سیاست کی تعلیم حاصل کر کے نسل در نسل محکوم و مجبورعوام کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا غریب کا بچہ انسان نہیں، کیا اسے اس سماج میں زندہ رہنے کا حق نہیں؟ کیاان ساٹھ فیصد بچوں کا تعلیم پر کوئی حق نہیں جو سکول نہیں جا سکتے؟ کیا صرف ایک فیصد نوجوان جو یونیورسٹی تک پہنچنے کے اخراجات بردشت کر سکتے ہیں ان کے علاوہ کسی کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں؟ یہ سب کچھ بھٹو شہید کی پارٹی کی حکومت میں ہو رہا ہے، پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت ریاست اور سامراج کی ایماء پر اس خطے کے نوجوانوں اور محنت کشوں پر تاریخ کے بدترین حملے کر رہی ہے۔ پارٹی قیادت کی موجودہ پالیسیاں عوام، محنت کشوں اور نوجوانوں کو نہ صرف معاشی طور پر برباد کر رہی ہیں بلکہ پارٹی کی ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ پارٹی کا بنیادی سوشلسٹ منشور آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے لیکن پارٹی قیادت نے اس منشور کا نام نہ لینے کی قسم کھا رکھی ہے۔

بھٹو شہید کی زندگی اور شہادت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ اس نا انصافی پر مبنی نظام کو تبدیل کرنے کی ناقابل مصالحت جدوجہد میں جان بھی قربان کی جا سکتی ہے مگر پارٹی کی موجودہ قیادت جدوجہد کے جذبوں کو ماند کرنے کیلئے تمام دائیں بازوں کی پارٹیوں سے مصالحت کا راگ الاپ رہی ہے اور شہداء کی برسی کے پروگراموں کو سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل کیلئے جدوجہد کو آگے بڑھانے اور منظم کرنے کیلئے منائے جانے کی بجائے برسیوں پر قرآن خوانی کے ذریعے ماتم اور یاس و مایوسی کی کیفیت کو مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن بھٹو کی برسی منانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ہم ماتم کریں بلکہ بھٹو کی شہادت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے، طلبہ یونین کی بحالی، ہر سطح پر نوجوانوں کو مفت تعلیم کی فراہمی جیسے مطالبات کو لے کر جدید سائنسی نظریات سے لیس اور طلبہ، مزدور ، کسان اتحاد کو یقینی بناتے ہوئے نظام سرمایہ داری کیخلاف فیصلہ کن لڑائی اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام ہی محنت کشوں اور نوجوانوں کی نجات کا باعث بن سکتا ہے!

متعلقہ:

اداریہ جدوجہد: بھٹو کی میراث کا نیلام؟

دسمبر27 کے زخم کب بھریں گے؟

پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس… سوشلسٹ انقلاب کا کیا ہوا؟