پرانے خاندان سے نئے خاندان تک
[تحریر: لیون ٹراٹسکی] (یہ آرٹیکل 13 جولائی 1923 ء میں ’’پراودا‘‘ میں شائع ہوا تھا۔اس کا پہلاانگریزی ترجمہ زیڈ و نجیروا (Z.Vengerove )نے کیا جو 1924 ء میں ’’زندگی کی مشکلات ‘‘میں شائع ہوا تھا)
[تحریر: لیون ٹراٹسکی] (یہ آرٹیکل 13 جولائی 1923 ء میں ’’پراودا‘‘ میں شائع ہوا تھا۔اس کا پہلاانگریزی ترجمہ زیڈ و نجیروا (Z.Vengerove )نے کیا جو 1924 ء میں ’’زندگی کی مشکلات ‘‘میں شائع ہوا تھا)
’’قدر ، قیمت اور منافع‘‘ یا ’’اجرت ، قیمت اور منافع‘‘ در اصل کارل مارکس کی ان تقاریر پر مبنی ہے جو انہوں نے 20اور 27جون 1865ء کو پہلی انٹرنیشنل کی جنرل کونسل کے دو اجلاسوں میں کیں۔
تحریر:مائیک پیلیسک:- (ترجمہ :اسدپتافی) ایک تواتر و تسلسل کے ساتھ، اٹھتے بیٹھتے ہم پر یہ ہو شربا راز آشکارکیاجاتاہے کہ سرمایہ دارانہ نظام‘ٹیکنالوجی، ایجادات کو نہ صرف آگے بڑھاتا ہے بلکہ سائنسی ترقی کو بھی دن دوگنی رات چوگنی ترقی دینے میں محواور مگن چلاآرہاہے۔
تحریر : ایلن ووڈز:- (ترجمہ : آدم پال) تغیر کا دور ’’مارکس سروینٹیز اور بالزاک کو باقی تمام ناول نگاروں سے زیادہ پسند کرتا تھا۔ ڈان کیخوٹے میں اسے پرانی رسمی شجاعت آخری سانسیں لیتی ہوئی نظر آئی جس کا ابھرتے ہوئے بورژوا سماج میں مذاق اْڑایا جاتا تھا۔‘‘
تحریر : ایلن ووڈز:- (ترجمہ : آدم پال) اس سال ڈان کیخوٹے،اسپین کے ادب کی عظیم ترین تخلیق، کی پہلی اشاعت کو 400برس ہو گئے ہیں۔محنت کش طبقہ، یعنی وہ طبقہ جو ثقافت کے تحفظ میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، اسے اس سالگرہ کوجوش وخروش سے منانا چاہیے۔
ولادیمیر لینن نے یہ کتاب 1920ء میں تحریر کی اور اسی سال شائع ہوئی۔1920ء میں ہی ہونے والی کامینٹرن کی دوسری عالمی کانگریس میں موجود ہر ڈیلیگیٹ کو اس کتاب کا ایک نسخہ پیش کیا گیا۔
تحریر: لیون ٹراٹسکی (1909) (ترجمہ: آدم پال) ہمارے طبقاتی دشمنوں کو اکثرہماری دہشت گردی کی شکایت رہتی ہے ۔ ان کا مطلب ابھی تک غیر واضح ہے۔ وہ چاہیں گے کہ پرولتاریہ کے طبقاتی دشمنوں کے مفادات کے خلاف تمام سرگرمیوں کو دہشت گردی قرار دیں۔
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ فن ایک ضمنی سامعاملہ ہے اور زیادہ اہم نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ انسانوں کے لئے انتہائی بنیادی نوعیت کاحامل ہے۔
تحریر: ابن حسن:- ریڈیکل ہونے کا مطلب ہے چیزوں کو جڑ سے پکڑنا؛ تاہم انسانیت کی جڑ خود انسان ہے (مارکس)
تحریر: ولادیمیر لینن(1913ء) تمام متمدن دنیا میں مارکس کی تعلیمات سے بورژوا علم (سرکاری بھی اور اعتدال پسند بھی) بھڑکتا ہے اور سخت عداوت رکھتا ہے۔ اس کی نظر میں مارکس ازم کیا ہے، ایک ’’مہلک فرقہ‘‘۔
تحریر ۔البرٹ آئن سٹائن:- کیا یہ اس شخص کے لیے سوشلزم کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہارکرنامعقول بات ہے جو معاشی اور سماجی مسائل کاماہر نہیں، ؟ میرے نزدیک اس کی وجوہات یہ ہیں۔
تحریر: لیون ٹراٹسکی:- (مترجم: جاوید شاہین) جدلیات نہ تو فکشن ہے اور نہ ہی تصوف۔ اگر اسے زندگی کے عام مسائل تک محدود نہ رکھا جائے تو یہ ایک سائنس ہے جس کے ذریعے پیچیدہ اور طویل اعمال کو سمجھا جا سکتا ہے۔
’’جس قسم کی اقدارکی پاسداری مارکسٹ نظریہ کرتاہے وہ ان سے تقریباً بالکل الٹ ہیں جو ہمارے موجودہ سائنسی طرزفکر سے سامنے آتی ہیں۔‘‘
(The Molecular Process of Revolution) کیمیائی ردعمل کے وقوع پذیر ہونے میں ایک ایسا فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے جسے عبوری حالت کہتے ہیں۔
تحریر:وقار احمد:- کسی بھی نظریئے کی تخلیق ،ترتیب اور ترقی کے لیے لازمی ہے کہ مروجہ سماج کے سیاسی ،معاشی اقتصادی ،سماجی اور موضو عی تضادات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والے واقعات کی فلسفے کی مدد سے توضیح اور تشریح کی جائے۔