امریکہ طالبان مذاکرات کا سراب
اتنی بربادی اور تباہی پھیلانے کے بعد یہ ’’مذاکرات‘‘ کروڑوں متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
اتنی بربادی اور تباہی پھیلانے کے بعد یہ ’’مذاکرات‘‘ کروڑوں متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
یہ سامراجی اس قدر بدحواس اور پاگل ہو چکے ہیں کہ تاریخ سے کچھ سیکھنے کی اہلیت ہی کھو چکے ہیں۔
ہنستے بستے سماجوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد یہ سامراجی خود دم دبا کے بھاگ رہے ہیں۔
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
نوجوانوں کی بڑی تعداد ریڈیکل نظریات کی طرف راغب ہو رہی ہے جنہیں انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر جیتا جا سکتا ہے۔
جدلیاتی طور پر چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور سستی لیبر والا یہی چین آج مغرب کے سامنے ایک معاشی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔
پروٹیکشنسٹ تجارتی پالیسیاں امریکہ کی معاشی شرح نمو میں عارضی اضافہ تو شاید کریں لیکن ان سے مستقبل کے تضادات اور مسائل بڑھیں گے۔
چند ہفتے پیشتر ہی ٹرمپ نے کِم کو ’راکٹ مین‘ اور ’تاریک جوکر‘ کے خطابات سے نوازا تھا جبکہ کِم نے ٹرمپ کو ذہنی مریض اور ’ہلڑ باز‘ قرار دیا تھا۔
داخلی خلفشار کو دبانے کے لئے بھی ایسی خارجہ محاذ آرائیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
’معاشی استحکام‘ کے حصول کے لئے مستقل کٹوتیوں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کی جو پالیسیاں لاگو کی گئی تھیں‘ ان کا نتیجہ سیاسی اتھل پتھل کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آج کا روس کوئی سوویت یونین نہیں ہے جس کے پاس ایک منصوبہ بند معیشت کی دیوہیکل طاقت ہو۔
تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے اور ٹرمپ کے خلاف نفرت سارے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
یہ کھوکھلی بڑھک بازیاں اور پالیسیوں میں تزلزل تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت امریکی سامراج کے زوال کا اظہار ہے۔
ہر سال 1500 ارب ڈالر سے زائد رقم اِن تباہی کے آلات پر دنیا بھر میں خرچ کی جاتی ہے۔ اِن پیسوں سے دنیا میں غربت اور بھوک کا خاتمہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار کیا جا سکتا ہے۔
یہ بحران معیشت سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے ساختی بحران میں بدل گیا ہے۔