ہندوستان: الیکشن یا پیسے والوں کی ’سلیکشن‘؟
انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام عملاً ایک ہی ہے۔
انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام عملاً ایک ہی ہے۔
جلیانوالہ کا قتل عام اس منظم نسل پرستی اور باضابطہ جبر کا نتیجہ تھا جو ہر سامراجی قوت کا خاصہ ہوتا ہے۔
مذہبیت کی زیادہ تر سماجی بنیادیں درمیان میں موجود تیس پینتیس کروڑ کی مڈل کلاس میں پائی جاتی ہیں جس کے وسیع ہجم اور ثقافتی اثر و رسوخ کی وجہ سے ہندوتوا کا غلبہ بظاہر زیادہ لگتا ہے۔
’جنگیں ان سیاسی نظاموں سے ناقابلِ علیحدگی ہیں جو انہیں جنم دیتے ہیں۔‘
وقتی خلل یا رکاوٹوں کے باوجود حکمران اس بغاوت کو کمزور اور بے سمت نہیں کر سکتے۔
اتنی بربادی اور تباہی پھیلانے کے بعد یہ ’’مذاکرات‘‘ کروڑوں متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
مودی جس ’چمکتے ہندوستان‘ (شائننگ انڈیا) کے نعرے کے ساتھ 2014ء میں اقتدار پر براجمان ہوا تھا وہ انڈیا صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہی چمک رکھتا ہے۔
ہنستے بستے سماجوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد یہ سامراجی خود دم دبا کے بھاگ رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں جمہوریت کا ڈھونگ خود اس کے معماروں نے بے نقاب کر دیا ہے۔
پاکستانی سماج کی سرکاری تاریخ حکمران طبقات کی تاریخ ہے۔ 1968-69ء کے ادھورے انقلاب کی تاریخ یہاں کے محنت کشوں کی تاریخ ہے۔
اس بحران کی بڑی وجہ بیرونی طاقتوں بالخصوص بھارت اور چین کی سری لنکا میں مداخلت اور مفادات کی جنگ ہے۔
نریندرا مود ی اب مذہبی منافرتوں کو نئی ہولناک انتہاؤں پر لے جانا چاہتا ہے جس سے وہ ہندو بنیاد پرستی کی وحشت کو ابھار کر 2019ء کا انتخاب جیت سکے۔
بظاہر ان طلبہ مظاہروں کا مرکز و محور’روڈ سیفٹی‘ ہے لیکن درحقیقت یہ عوام بالخصوص نوجوانوں کا پورے نظام کے خلاف غم و غصہ کا اظہار ہے۔
بٹوارے کی سات دہائیوں بعد تاریخ کا کوئی ناقابلِ تردید سبق ہے تو وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ان سماجوں کو آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہے۔
سماج کی کوکھ میں ایک عرصے سے پلنے والے سماجی معاشی تضادات ایک خاص مقام پر پہنچ کر اچانک ایک دھماکے کو جنم دے سکتے ہیں۔